(ب) یہ کہ عمل کا قرآنِ پاک کے مطابق ہونا لازم ہے۔ اور جہاں ایک نتیجہ اس کا یہ ہے کہ قرآن کے مخصوص احکام کی پابندی ہو گی دوسرا نتیجہ یہ بھی ہے کہ اس کے عام احکام کی پابندی بھی لازم ہو گی۔ قرآن پاک بار بار معروف کا حکم دیتا ہے۔ اولی الامر کو خاص طور پر ہدایت کرتا ہے کہ وہ معروف کا حکم دیں۔ اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّكَّنَّاھُمْ فِيْ الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلوٰةَ وَاٰتُوَ الذَّكوٰة وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَھَوْ عَنِ الْمُنْكَرِط وَلِلهِ الْعَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ (الحج۔ ۴۱) لہٰذا والیٔ امر خود بھی معروف کا پابند ہو گیا۔ اور اس امر کا بھی پابند ہوا کہ دوسروں کو معروف کا حکم دے۔ یعنی ایک محکمہ بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے قائم کرے۔ معروف وہ عمل ہے جس کو اسلامی ذہن رکھنے والا معاشرہ قبول کرے یعنی وہ عمل جو جمہور مسلمانوں کی رائے میں صحیح ہو جب کہ وہ اس عمل کے متعلق کوئی ذاتی خواہش نہیں رکھتے اور نہ ہی کے ذاتی مفاد اس سے وابستہ ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے ’’جسے مسلمان اچھا سمجھیں اللہ کے نزدیک وہی اچھا ہے۔‘‘ سو والیٔ امر معروف کا پابند ہو گا اور اس کا کوئی عمل جو معروف کے خلاف ہو، جائز نہ ہو گا اور لوگوں پر اس کے حکم کی پابندی لازم نہ ہو گی۔ کیونکہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ’’لَا طَاعَةَ لمخلوق فی معصية الخالق‘‘ البتہ مسلمان اس کو بہانہ نافرمانی کا نہیں بنا سکتے۔ معروف ایسا عمل ہے جس کے متعلق کوئی شک و شبہ نہیں ہوتا اور کسی بحث کی اس میں کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ سوائے اس کے کہ کوئی انسان غلط نیت سے خواہ مخواہ ایک تنازعہ پیدا کرے۔ (ج) جہاں والیٔ امر سنت کا پابند ہوگا۔ وہاں اجماع بھی پابند ہو گا۔ کیونکہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے بموجب اجماع صحیح ہے۔ اور لہٰذا قابلِ پابندی۔ (د) والیٔ امر کا صاحب اجتہاد ہونا بھی لازم ہے۔ اگر وہ اجتہاد کی قابلیت نہیں رکھتا تو اللہ و رسول کا منشا تو پورا نہ ہوا۔ 2. تنازعات کے فیصلے کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جب تک دونوں فریقوں کو سن نہ لیا جائے۔ فیصلہ اور نہ کیا جائے۔ یہ حکم حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیا تھا۔ جب ان کو یمن کا عامل بنا کر بھیجا۔ ایک اور موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ مدعی اور مدعا علیہ حاکم کے سامنے بیٹھیں۔ اس حکم کا نتیجہ بھی یہی ہے کہ دونوں سے برابری کا سلوک ہو اور دونوں کو سنا جائے۔ یہ اصول کہ کسی کے خلاف فیصلہ صادر نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک اس کو سن نہ لیا جائے، اُن اصولوں میں سے ہے، جن کو فی زمانہ قدرتی انصاف کے اصول کہا جاتا ہے۔ یہ اصول آپ کو پاکستان، ہندوستان، انگلستان کے فیصلہ میں ملے گا۔ اور عام طور پر تمام مہذب ممالک کے قوانین میں ہو گا۔ البتہ اشتراکی ملکوں |