پروفیسر امان اللہ خاں، شعبۂ علومِ اسلامیہ، پنجاب یونیورسٹی لاہور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت مؤسِّس و مُدبّرِ ریاست ایک عظیم الشان ریاست کی تاسیس اور تدبیر و تنظیم سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا حیرتِ انگیز اور لاثانی کارنامہ ہے۔ ایک ایسی شخصیت جسے اپنے ہم وطنوں نے قتل کر دینے کا تہیہ کر رکھا ہو صرف ایک مونس و مدگار رفیقِ سفر کے ساتھ غاروں میں چھپتی، نامانوس اور دشوار گزار راستوں پر چلتی‘ اپنے وطن سے سینکڑوں میل دور مدینہ میں پناہ گزیں ہوتی ہے۔ وطن سے بے وطن ہونے والی یہ ہستی تائید ایزدی اور اپنی فراست سے ۱ھ میں مدینہ کے چند محلوں پر مشتمل ایک شہری ریاست قائم کرتی ہے۔ یہ ریاست اوسطاً ۲۷۴ مربع میل فی یوم کی بے نظیر سرعت کے ساتھ دس سال کے قلیل عرصہ میں بڑھ کر دس لاکھ مربع میل ہو جاتی ہے۔ پورا عرب جس میں نراج کا دور دورہ تھا اور جس نے ایک جھنڈے اور ایک حکومت کے ما تحت اکٹھا ہونا سیکھا ہی نہیں تھا یکایک پرچم اسلام کے ما تحت متحدو منظم ہو گیا اور اس نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی و سیاسی قیادت کو تسلیم کر لیا۔ قومیت کا بت پاش پاش ہو گیا اور اس کی جگہ پر ایک عالمگیر مسلم برادری کا قیام عمل میں آیا۔ پوری ملت کو ایک معبود، ایک رسول، ایک کتاب، ایک قبیلے اور ایک مرکز پر جمع کر دیا گیا۔ میثاقِ مدینہ کو تحریر صورت دے کر اسے دنیا کا پہلا تحریری دستور بنا دیا گیا۔ عوام اور ریاست کے حقوق و فرائض کا تعین ہوا۔ انصاف اور قانون کی حکومت قائم ہوئی اور قانون کے سامنے مساوات کا اصول وضع ہوا۔ انتظامیہ، مقننہ اور دلیہ کے اصول و ضوابط مرتب ہوئے۔ شوریٰ کی فضیلت قائم ہوئی۔ ریاست کے شہریوں کی معاشرتی، معاشی، تعلیمی، اخلاقی و روحانی اور سیاسی زندگی کے ضابطے وضع ہوئے اور ان کا عملی نفاذ ہوا۔ خارجہ پالیسی کے اصول اور طریقِ کار کا تعین ہوا۔ غیر مسلم اقلیتوں |