کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ کیونکہ پاکستان کی موجودہ حکومت نے بہت سے سرکاری ملازموں کو بغیر نوٹس اظہارِ وجوہ موقوف کر دیا تو ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے ریٹائر ججوں نے ایک قرار داد منظور کر کے حکومت کو بھیجی تھی جس میں لکھا گیا تھا کہ اسلامی انصاف کے اصولوں کے مطابق ان ملازمین کا حق ہے کہ ا ن کو موقع صفائی کا مہیا کیا جائے۔ اسلامی انصاف کا جب ذکر ججوں نے کیا تو ان کا اشارہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مندرجہ بالا حدیثوں کی جانب تھا۔ لیکن حکومت کے ایک وزیر نے بیان دیا کہ یہ اصول کہ ملزم کو صفائی کا موقع ملنا چاہئے ایک بورژوائی اصول ہے۔ اسی بیان کی وجہ سے میں کہتا ہوں کہ ممکن ہے اشتراکی ممالک اس اسلامی اصول کو قبول نہ کرتے ہوں۔ 3. دوسرا اصول جو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تنازعات کے فیصلہ کے متعلق قائم کیا وہ یہ تھا کہ تنازعہ کا فیصلہ ریکارڈ پر ہوتا ہے۔ یعنی اس مواد کی بنا پر ہوتا ہے۔ جو مواد حاکم یا قاضی کے سامنے بطور حاکم یا قاضی آئے۔ ادھر ادھر کی باتیں سن کر یا کسی ایسی شہادت سے متاثر ہو کر، جو حاکم کے سامنے بطور حاکم نہیں آئی، فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اصول بھی مہذب اقوام نے قبول کر لیا ہوا ہے (سوائے کمیونسٹ ممالک کے) اور یہ مسلمہ ہے۔ اس کی دو بنیادیں ہیں۔ اول یہ کہ قانونِ شہادت کی اقسام معین کر دیتا ہے اور ان اقسام کے علاوہ مواد کو قبول نہیں کرتا۔ دوسرے یہ کہ جو مواد حاکم کے پاس بطورِ حاکم پیش نہیں ہوا، اس کی تردید کا موقع فریقِ مخالف کو نہیں ملتا۔ اور یہ ناجائز ہے کہ تردید کا موقع فریقِ مخالف کو نہیں ملا۔ اور یہ ناجائز ہے کہ تردید کا موقع مہیا کیے بغیر کسی کے خلاف کوئی شہادت قبول کر لی جائے۔ یہاں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا ذکر کر دینا بھی مناسب ہو گا کہ اگر کسی نے غلط فیصلہ کر لیا۔ تو اس نے صرف آگ کا ٹکڑا خریدا۔ جو چیز ایک فریق کے لئے حرام تھی، فیصلہ کے ذریعے حلال نہ ہو جائے گی۔ فیصلہ تو محدود مواد پر ہوتا ہے اور اس بحث پر ہوتا ہے جو حاکم کے سامنے کی جائے۔ اور یہ ہو سکتا ہے کہ جو فریق حق پر نہیں وہ اس وجہ سے مقدمہ جیت جائے کہ اس نے مواد بہتر پہنچایا یا اس کی بحث زیادہ اثر پیدا کرنے والی تھی۔ 4. انسانی برابری کا عملی نمونہ اسلام نے دنیا کے روبرو پیش کیا۔ اسلام سے پہلے یورپ انسانی برابری کا قائل ہی نہ تھا۔ یونانی تہذیب نے انسانوں کو چار طبقات میں تقسیم کیا ہوا تھا۔ اور رومن تہذیب نے تین طبقات میں۔ یہ دونوں تہذیبیں غلاموں کو شیروں کے آگے ڈالتی تھیں۔ عیسائیت نے بھی غلاموں کو قانوناً جائز تسلیم کیا۔ اور غلاموں کو ہدایات دیں کہ وہ اپنے مالکوں کی پوری اطاعت کریں۔ غلامی کا جواز یہ بتایا کہ انسان چونکہ گنہگار ہو گیا تھا اس لئے اس کو گناہ کی سزا مل رہی ہے۔ اسلام نے آکر انسانوں کو یکسر برابر کر دیا۔ برابری انصاف کا سب سے بڑا اصول ہے اور سچ یوں کہ انصاف کی عمارت کی بنیاد برابری ہی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو قصاص اور دِیت میں بھی برابر کر دیا۔ قرآن پاک نے فرمایا کہ وجہِ تکریم تقویٰ ہے۔ نسل و رنگ وغیرہ کی بنا |