Maktaba Wahhabi

37 - 198
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے کسی درجہ میں خواہش مند نہ تھے۔ یہ انتخابِ خداوندی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت سے سرفراز کیا گیا اور عالمگیر دعوت کی ذمہ داریاں آپ کو سونپ دی گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حاشیۂ خیال میں بھی اس کا ارادہ یا خواہش تو درکنار اس کی توقع تک کبھی نہ گزری تھی، بس یکایک راہ چلتے انہی کھینچ بلایا گیا اور نبی بنا کر وہ حیرت انگیز کام ان سے لیا گیا جس کا کوئی نقش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سابق زندگی میں نظر نہیں آتا۔ مکہ کے لوگ خود جانتے تھے کہ غارِ حرا سے جس روز آپ نبوت کا پیغام لے کر اُترے اِ سسے ایک دن پہلے تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کیا تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشاغل کیا تھے، آپ کی بات چیت کیا تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات چیت کے موضوعات کیا تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دلچسپیاں اور سرگرمیاں کس نوعیت کی تھیں۔ یہ پوری زندگی صداقت، دیانت، امانت اور پاک بازی سے لبریز ضروری تھی۔ اس میں انتہائی شرافت، امن پسندی، پاسِ عہد، اوائے حقوق اور خدمتِ خلق کا رنگ بھی غیر معمولی شان کے ساتھ نمایاں تھا۔ مگر اس میں کوئی چیز ایسی موجود نہ تھی، جس کی بنا پر کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ خیال گزر سکتا ہو کہ یہ نیک بندہ کل نبوت کا دعویٰ لے کر اُٹھنے والا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب ترین ربط و ضبط رکھنے والوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں اور ہمسایوں اور دوستوں میں کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے سے نبی بننے کی تیاری کر رہے تھے۔ کسی نے ان مضامین اور مسائل اور موضوعات کے متعلق کبھی ایک حرف تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے نہ سنا جو غارِ حرا کی اس انقلابی ساعت کے بعد یکایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر جاری ہونے شروع ہو گئے۔ کسی نے آپ کو وہ مخصوص زبان اور وہ الفاظ اور اصطلاحات استعمال کرتے نہ سنا تھا جو اچانک قرآنِ پاک کی صورت میں لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے لگے۔ کبھی آپ وعظ کہنے کھڑے نہ ہوئے تھے۔ کبھی کوئی دعوت اور تحریک لے کر نہ اُٹھے تھے، بلکہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سرگرمی سے گمان تک نہ ہو سکتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجتماعی مسائل کے حل یا مذہبی اصلاح یا اخلاقی اصلاح کے لئے کوئی کام کرنے کی فکر میں ہیں اس انقلابی سباعت سے ایک دن پہلے تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایک ایسے تاجر کی زندگی نظر آتی تھی جو سیدھے سادھے جائز طریقوں سے اپنی روزی کماتا ہے۔ اپنے بال بچوں کے ساتھ رہتا ہے۔ مہمانوں کی تواضع، غریبوں کی مدد اور رشتہ داروں سے حسنِ سلوک کرتا ہے اور کبھی کبھی عبادت کرنے کے لئے خلوت میں جا بیٹھتا ہے۔ ایسے شخص کا ایک عالمگیر زلزلہ ڈال دینے والی خطابت کے ساتھ اُٹھنا، ایک انقلاب انگیز دعوت شروع کر دینا، ایک نرالا لٹریچر پیدا کر دینا، ایک مستقل فلسفۂ حیات اور نظامِ فکر و اخلاق و تمدن لے کر سامنے آجانا کتنا بڑا تغیر ہے جو انسانی نفسیات کے لحاظ سے کسی بناوٹ اور تیاری اور ارادی کوشش کے نتیجہ میں قطعاً رونما نہیں ہو سکتا۔ اس لئے کہ ایسی ہر کوشش اور تیاری بہرحال تدریجی ارتقاء کے مراحل سے گزرتی ہے اور یہ مراحل ان لوگوں سے کبھی مخفی نہیں رہ سکتے جن کے درمیان آدمی شب و روز زندگی گزارتا ہو۔ اگر آنحضرت
Flag Counter