Maktaba Wahhabi

38 - 198
صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ان مراحل سے گزری ہوتی تو مکہ میں سینکڑوں زبانیں یہ کہنے والی ہوتیں کہ ہم نہ کہتے تے کہ یہ شخص ایک بڑا دعویٰ لے کر اُٹھنے والا ہے لیکن تاریخ شاہد ہے کہ کفار مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر طرح کے اعتراضات کیے مگر یہ اعتراض کرنے والا ان میں کوئی ایک بھی نہ تھا۔ اُتر کر حرا سے سوئے قوم آیا: پھر یہ بات کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی نبوت کے خواہشمند، یا اس کے لئے متوقع اور منتظر نہ تھے بلکہ پوری بے خبری کی حالت میں اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس معاملہ سے سابقہ پڑا، اس کا ثبوت اس واقعہ سے ملتا ہے جو احادیث میں آغازِ وحی کی کیفیت کے متعلق منقول ہوا ہے، جبریل علیہ السلام سے پہلی ملاقات اور سورۂ علق کی ابتدائی آیات کے نزول کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حرا سے کانپتے اور لرزتے ہوئے گھر پہنچتے ہیں، گھر والوں سے کہتے ہیں کہ ’’مجھے اُڑھاؤ، مجھے اُڑھاؤ‘‘ کچھ دیر کے بد جب خوف زدگی کی کیفیت دُور ہوتی ہے تو اپنی رفیقِ زندگی کو سارا ماجرا سنا کر کہتے ہیں کہ ’’مجھے اپنی جان کا ڈر ہے۔‘‘ وہ فوراً جواب دیتی ہیں۔ ’’ہرگز نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کبھی رنج میں نہ ڈالے گا۔ آپ تو قرابت داروں کے حق ادا کرتے ہیں، بے بس کو سہارا دیتے ہیں، بے زر کی دستگیری کرتے ہیں۔ مہمانوں کی تواضع کرتے ہیں۔ ہر کارِ خیر میں مدد کے لئے تیار رہتے ہیں۔‘‘ پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر ورقہ بن نوفل کے پاس جاتی ہیں جو ان کے چچازاد بھائی اور اہلِ کتاب میں سے ایک ذی علم اور راستباز آدمی تھے۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سارا واقعہ سننے کے بعد بلا تامل کہتے ہیں کہ ’’یہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تھا۔ وحی ناموس (کارِ خاص پر مامور فرشتہ) ہے جو موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تھا۔ کاش میں جوان ہوتا اور اس وقت تک زندہ رہتا جب آپ کی قوم آپ کو نکال دے گی۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوچھتے ہیں۔ ’’کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟‘‘ وہ جواب دیتے ہیں ’’ہاں، کوئی شخص ایسا نہیں گزرا کہ وہ چیز لے کر آیا ہو، جو آپ لے کر آئے ہیں اور لوگ اس کے دشمن نہ ہو گئے ہوں۔‘‘ یہ پورا واقعہ اس حالت کی تصویر پیش کر دیتا ہے جو بالکل فطری طور پر یکایک خلافِ توقع ایک انتہائی غیر معمولی تجربہ پیش آجانے سے کسی سیدھے سادھے انسان پر طاری ہو سکتی ہے۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پہلے سے نبی بننے کی فکر میں ہوتے اور اپنے متعلق یہ سوچ رہے ہوتے کہ مجھ جیسے آدمی کو نبی ہونا چاہئے اور اس انتظار میں مراقبے کر کر کے اپنے ذہن پر زور ڈال رہے ہوتے کہ کب کوئی فرشتہ آتا ہے اور میرے پاس پیغام لاتا ہے تو غارِ حرا والا معاملہ پیش آتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوشی سے اچھل پڑتے اور بڑے دم دعویٰ کے ساتھ پہاڑ سے اُتر کر سیدھے اپنی قوم کے پاس پہنچتے اور اپنی نبوت کا اعلان کر دیتے۔ لیکن اس کے برعکس یہاں حالت یہ ہے کہ جو کچھ دیکھا تھا اس پر ششدر رہ جاتے ہیں۔ کانپتے اور لرزتے گھر پہنچتے ہیں۔ لحاف اوڑھ کر لیٹ جات ہیں۔ ذرا اول ٹھہرتا ہے تو چپکے سے بیوی کو بتاتے ہیں کہ آج غار کی تنہائی میں مجھ پر یہ حادثہ
Flag Counter