گزرا ہے، مجھے اپنی جان کی خیر نظر نہیں آتی۔ یہ کیفیت نبوت کے کسی امیدوار کی کیفیت سے کس قدر مختلف ہے؟ پھر بیوی سے بڑھ کر شوہر کی زندگی، اس کے حالات اور اس کے خیالات کو کون جان سکتا ہے، اگر ان کے تجربے میں پہلے سے یہ بات آئی ہوتی کہ میاں نبوت کے امیدوار ہیں اور ہر وقت فرشتے کے آنے کا انتظار کر رہے ہیں، تو ان کا جواب ہرگز وہ نہ ہوتا۔ جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے دیا۔ وہ کہتیں ’میاں گھبراتے کیوں ہو، جس چیز کی مدت سے تمنا تھی وہ مل گئی، چلو اب پیری کی دکان چمکاؤ، میں بھی نذرانے سنبھالنے کی تیاری کرتی ہوں۔‘‘ مگر وہ پندرہ برس کی رفاقت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا جو رنگ دیکھ چکی تھیں اس کی بنا پر انہیں یہ بات سمجھنے میں ایک لمحہ کی بھی دیر نہ لگی کہ ایسے نیک اور بے لوث انسان کے پاس شیطان نہیں آسکتا نہ اللہ اس کو بری آزمائش میں ڈال سکتا ہے، اس نے جو کچھ دیکھا ہے وہ سراسر حقیقت ہے۔ اور یہی معاملہ ورقہ بن نوفل کا بھی ہے۔ وہ کوئی باہر کے آدمی نہ تھے بلکہ حضور کی اپنی برادری کے آدمی تھے اور قریب کے رشتے سے برادرِ نسبتی تھے۔ پھر ایک ذی علم عیسائی ہونے کی حیثیت سے نبوت اور کتاب اور وحی کو بناوٹ اور تصنّع سے ممیّز کر سکتے تھے۔ عمر میں بڑے ہونے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی بچپن سے اس وقت تک ان کے سامنے تھی۔ انہوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ سے حرا کی سرگزشت سنی تو فوراً کہہ دیا کہ یہ آنے والا یقیناً وہی فرشتہ ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر وحی لاتا تھا کیونکہ یہاں بھی وہی صورت پیش آئی تھی جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ پیش آئی تھی کہ ایک انتہائی پاکیزہ سیرت کا سیدھا سادھا انسان بالکل خالی الذہن ہے۔ نبوت کی فکر میں رہنا تو درکنار، اس کے حصول کا تصور بھی اس کے حاشیۂ خیال میں کبھی نہیں آیا ہے اور اچاک وہ پورے ہش و حواس کی حالت میں علانیہ اس تجربے سے دو چار ہوتا ہے۔ اسی چیز نے ان کو دو اور دو چار کی طرح بلا ادنیٰ تاملّ اس نتیجہ تک پہنچا دیا کہ یہاں کوئی فریب نفس یا کوئی شیطانی کرشمہ نہیں ہے، بلکہ اس سچے انسان نے اپنے کسی ارادے اور خواہش کے بغیر جو کچھ دیکھا ہے وہ دراصل حقیقت ہی کا مشاہدہ ہے۔ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ایک ایسا بین ثبوت ہے کہ ایک حقیقت پسند انسان مشکل ہی سے اس کا انکار کر سکتا ہے۔ اسی لئے قرآن میں متعدد و مقامات پر اسلے دلیل نبوت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ مثلاً سورۂ یونس علیہ السلام میں فرمایا ہے: ’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہو کہ اگر اللہ نے یہ نہ چاہا ہوتا تو میں کبھی یہ قرآن تمہیں نہ سناتا۔ بلکہ اس کی خبر تک تم کو نہ دیتا۔ آخر میں اس سے پہلے ایک عمر تمہارے درمیان گزار چکا ہوں، کیا تم اتنی بات بھی نہیں سمجھتے۔‘‘ (رکوع۔۲) |