ایک قبطی کو مارا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قبطی کو بلایا اور اپنے سامنے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے بیٹے کو اس سے مروایا۔ اور ساتھ ساتھ کہتے جاتے تھے۔ ’’مار بڑوں کی اولاد کو۔‘‘ ہمارے موجودہ آئین کے مطابق صدر اور گورنر کسی عدالت کے سامنے پیش نہیں ہو سکتے۔ چاہے وہ جتنے انسانوں کو چاہیں قتل کر دیں۔ جس قدر روپیہ چاہیں غبن کر لیں۔ غرض کہ چاہے کیسا بھی جرم کریں۔ جب تک وہ صدر یا گورنر ہیں۔ ان سے کوئی باز پرس نہیں ہو سکتی۔ یہ ملحدانہ تصورات کا اثر ہے۔ ورنہ کہاں اسلام اور کہاں اس قسم کے امتیازات حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ، خلیفہ مامون الرشید، سلطان مراد سب عدالت میں پیش ہو سکتے ہیں لیکن پاکستان کے گورنر اور صدر نہیں ہو سکتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا محاسبہ تو قوم اتنے جرم پر بھی کر سکتی ہے کہ ان کی قمیض دوسروں سے تھوڑی سی لمبی تھی۔ اور خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب سوال کیا کہ اگر میں نے فی الواقع قمیض کا کپڑا زیادہ لے لیا ہوتا تو تم کیا کرتے تو اس کا ان کو جواب ملا کہ یہ تلوار ہے اس سے تیرا سر قلم کرتے۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ کا شکر ادا کیا تھا کہ اگر وہ غلطی کریں تو ان کو قتل کرنے والے موجود ہیں۔ لیکن جہاں وہ اپنی قمیض کی لمبائی کے بھی جوابدہ تھے، ہمارے حاکم قتل کے بھی جوابدہ نہیں۔ اس موقع پر حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی صلح کی گفتگو بھی یاد آگئی ہے، جو انہوں نے رومیوں سے کی تھی۔ رومیوں نے کہا ہمارا بادشاہ بڑی طاقت والا، بڑی شان و شوکت والا ہے۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے جواب دیا۔ تمہارا بادشاہ ایسا ہو گا۔ ہمارا بادشاہ ہم میں سے ایک ہے اگر وہ چوری کرے ہم اس کا ہاتھ کاٹ دیں۔ اگر وہ زنا کرے تو ہم اس کو سنگسار کر دیں۔ اور جب ہم اس کے پاس کسی کام کے لئے جاتے ہیں تو اس کا فرض ہے کہ ہماری سنے ہمیں اس بات کا احساس ہے کہ عدالت کے روبرو پیش ہونے سے ہماری عزت کم نہیں ہوتی بلکہ بڑھتی ہے، اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ قاضی کے روبرو پیش ہوئے تو کیا ان کی عزت کم ہوئی۔ یا تاریخ میں انہوں نے اپنا مقام پیدا نہیں کیا؟ آج ہمیں اس امر کا احساس نہیں کہ ہم اس قسم کا قانون وضع کر کے اسلام پر دھبّہ لگا رہے ہیں۔ اس ملک کا بیان کردہ مذہب اسلام ہے تو کیا اسلام اس قسم کا امتیاز روا رکھتا ہے؟ آئین سے تو یہی نتیجہ نکلے گا کہ روا رکھتا ہے۔ 5. حجۃ الوداع کے موقع پر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ان کے حقوق کا پرواہ عطا فرمایا۔ حکم دیا کہ سب کی جان و مال، عزت اسی طرح حرام ہے جیسے اس ماہ کی حرمت، جس میں حج ہو رہا تھا۔ اس حکم کا نتیجہ ہے کہ کوئی فرد یا گروہ یا حکومت کسی مسلمان کی جان، مال یا عزت پر حملہ نہیں کر سکتے۔ اقوامِ متحدہ نے تو ۱۹۴۸ء میں انسانی حقوق کا اعلان کیا ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال پہلے انسانی حقوق کا اعلان کر دیا تھا۔ یہ اعلان فرد کے حقوق کو قبول کرتا ہے۔ اور حکومت کے اختیارات پر حد قائم کرتا ہے۔ اس معاملہ میں |