زیر باری سے دوچار کیا جائے گا اور نہ ہی ان پر کسی کا ظلم روا رکھا جائے گا۔ [1] شہریوں کے بنیادی حقوق کا تعین و تحفظ: ہادیٔ برحق کا یہ طرۂّ امتیاز ہے کہ اس نے پوری نسلِ انسانی کو اس کے بنیادی انسانی حقوق سے نہ صرف یہ کہ آگاہ کیا بلکہ ایک ایسی ملت کی تشکیل کی جو ان حقوق کا تحفظ کرنے والی تھی۔ رنگ، خاندان، نسل، وطن اور لسان کی بنیاد پر برتری، فوقیت اور استحصال کو ختم کرتے ہوئے وحدت و مساواتِ نسلِ انسانی کا عملی سبق دیتے ہوئے عربی و عجمی، کالے، گورے، گندمی و زرد رنگ، حبشی و غیر حبشی، رومی و ایرانی، ترک و ہندی کا امتیاز ختم کر دیا اور وجہِ فضیلت فقط کردار کی مضبوطی اور اہلیت کو قرار دیا۔ جملہ انسانوں کو بحیثیت انسان محترم اور مساوی قرار دیا گیا۔ اور ان کے جان، مال اور آبرو کے تحفظ کی ضمانت دی گئی۔ مملکتِ اسلامیہ میں بسنے والے مسلمانوں کے حقوق و فرائض کی نشاندہی کرتے ہوئے ہی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃّ الوداع کے موقع پر کہا تھا: لوگو! تمہارے خون، تمہارا مال، اس دِن، اس ماہ اور اس شہر کی حرمت کی طرح حرام ہے تآنکہ تم اپنے رب سے جاملو۔ کیا میں نے بات پہنچا دی! اے اللہ گواہ رہنا۔ جس شخص کے پاس کوئی امانت ہو وہ جس کی امانت ہے اسے لوٹا دے۔ جاہلیت کا سود میرے پاؤں تلے ہے۔ پہلا سود جس سے میں اس حکم کا آغاز کرتا ہوں میرے چچا عباس بن عبد المطلب کا سود ہے۔ جاہلیت کا خون منسوخ ہے اور اس ضمن میں پہلا خون جسے ہم معاف کرتے ہیں۔ عامر بن ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب کا ہے۔ جاہلیت کے اعزازت ختم کئے جاتے ہیں۔ بجز خدمتِ کعبہ اور حجاج کو پانی پلانے کے۔ قتلِ عمد میں قصاص ہو گا اور شبہ عمد کہ کسی کو لاٹھی یا پتھر سے مار ڈالا جائے اس میں سو اونٹ دینے ہوں گے۔ جو اس پر اضافہ کرے گا وہ اہلِ جاہلیت میں سے ہے۔ کیا میں نے بات پہنچا دی۔ اے اللہ گواہ رہنا۔ پھر فرمایا! اے لوگو تمہاری عورتوں کا تم پر حق ہے اور تمہارا ان پر حق ہے۔ تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بسر پر کسی دوسرے کو نہ آنے دیں اور تمہاری اجازت کے بغیر کسی ایسے آدمی کو تمہارے گھر نہ آنے دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو۔ اور کوئی بے حیائی کا کام نہ کریں۔....................................... اللہ کی امانت کے طور پر تم نے انہیں حاصل کیا اور اللہ کے کلمہ سے تمہار لئے ان سے تمتع جائز ہوا۔ عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو اور ان کے ساتھ بھلائی کا سلوک کرو۔ کیا میں نے |