مبنی تھا۔ اسلامی تعلیمات کی رو سے اسلامی معاشرے میں مذہب و عقیدہ کی پوری آزادی ہے۔ قرآنِ حکیم میں تمام انبیاء کا، خواہ ان کا نام لیا گیا ہے یا نہیں، ایک سا احترام کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اسلامی ریاست اس امر کی پابند ہے کہ وہ تمام اقلیتوں کی جان، مال، آبرو و دیگر بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کا مکمل اہتمام کرے۔ قرآنِ حکیم کی یہ تعلیم کہ لَا اِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْن (۲۵۶:۲) اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ تلقین ’’فانت تکرہ الناس حتی یکونوا مومنین‘‘ (۱۰۔۹۹) مذہب کے معاملے میں زبردستی اور جبر و اکراہ کو سختی سے روکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنے تئیں ربّ العالمین اور رحمان و رحیم ہونے کا اعلان کیا ہے وہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمۃٌ للّعالمین کا خطاب دے کر پوری نسلِ انسانی سے مسلمانوں کے رحیمانہ سلوک کی نشان دہی کی ہے۔ اقلیتوں کے بارے میں سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح، رحیمانہ اور انصاف پر مبنی پالیسی کا پتہ میثاقِ مدینہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جاری کردہ فرامین و عہد ناموں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اقلیتوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کے حقوق کے تحفظ کا اگر صرف ایک واقعہ بیان کرنا ہو تو وہ اہلِ نجران کے عیسائی پادریوں کا واقعہ ہے جو وفد کی صورت میں مدینہ آئے تھے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مسجدِ نبوی میں ٹھہرایا تھا۔ انہیں ان کے طریق کے مطابق عبادت کی اجازت دی تھی۔ مذہب پر ان کے ساتھ تبادلۂ خیال کیا تھا لیکن ان کے انکار پر انہیں حقوق کی ادائیگی کے بارے میں مکمل تحفظ کا یقین دلایا تھا۔ نجران کے پادریوں کے لئے ایک فرمان جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاری فرمایا تھا اس کی عبارت کا اردو ترجمہ درج ذیل ہے: ’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ من جانب محمد نبی صلی اللہ علیہ وسلم بنام ابو حارث بشمول نجران کے دیگر پادری، راہب اور کاہن۔ 1. سب اپنی اپنی جائیداد کے خود مالک ہیں۔ 2. ان کے گرجے، عبادت خانے اور خانقاہوں کی حفاظت خدا کے ذمے ہے۔ 3. ان کے پادری اور راہبوں کو ان کے طریقِ عبادت اور کاہنوں کو ان کے کام سے نہ ہٹایا جائے گا اور نہ ہی ان کے حقوق میں مداخلت کی جائے گی۔ ان امور پر ایفائے عہد کی ذمہ داری بھی خدا اور رسول پر ہے بشرطیکہ یہ لوگ ہمارے ساتھ کئے ہوئے معاہدے کی خود بھی پابندی کریں اور ہماری خیر طلبی پر قائم رہیں تب انہیں کسی قسم کی مزید |