ہونا چاہئے۔ اس کے دل و دماغ، عزم و اعتماد، عقل و شعور، استقلال و سلامت روی انصاف پروری اور اعتدال پسندی کی خوبیوں سے متصف ہوں۔ اسے زندہ دل، جفا کش بے خوف اور بے باک ہونا اہئے۔ اسی طرح مصائب کے مقابلے میں ثابت قدم رہنا، غور و خوض کا عادی ہونا، نیز مردم شناس ہونا تاکہ وہ اپنے آدمیوں اور دشمن کو صحیح طور پر سمجھ سکے۔ 2. آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قلیل ترین مدت میں مسلمانوں کے اندر اعلیٰ درجہ کا لشکری ضبط و نظم، بہترین حربی استعداد، عزم و حوصلہ، بے نفسی و خود اعتمادیاعتمادی، جفاکشی و ایثار، اطاعت شعاری و فرمانبرداری، اخوّت و مساوات کی بے مثال خوبیاں پیدا کر کے انہیں منظم و مرتب فوج بنا دیا تھا۔ 3. آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے حالات کا اندازہ کر کے مدینہ سے ینبوع اور ینبوع سے مکہ تک فوجی نقل و حرکت کر کے مجاہدین کر ہر نشیب و فراز کا مشاہدہ کرایا۔ تاکہ وہ اس کے دشوار گزار راستوں، پگڈنڈیوں، چشموں اور غاروں وغیرہ سے اچھی طرح واقف ہو جائیں اور جب لڑائی کا وقت آئے تو نقل و حرکت میں کسی قسم کی دشواری نہ ہو۔ 4. آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین کو اسلحہ استعمال میں ماہر بنایا۔ انہیں بلا تکان رات ہو یا دن، منزلِ مقصود پر پہنچنے کی عادت ڈالی اور ان میں فوجی راز کو راز رکھنے کی قابلیت پیدا کی۔ 5. فوجوں کو عَلَم عطا فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے عرب میں اپنی دفاعی فضیلت کا اعلان کیا۔ سیاسی طور پر یہ منافقین پر بہت کاری ضرب تھی۔ فوجوں میں صف بندی اور مہمات پر روانگی سے قبل ان کا معائنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت اہم کارروائی تھی۔ جن سے سیاسی و فوجی نظم و استحکام میں بہت زیادہ مدد ملی۔ 6. مکہ میں نامہ نگار متعین کیا۔ جو خفیہ طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں کے حالات سے باخبر رکھتا۔ ایک طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوجی دستوں اور جاسوسوں کے ذریعے حالات معلوم فرماتے دوسری طرف خبر رسانی کا بھی انتظام رکھتے۔ 7. اس کے ساتھ اپنے شہری باشندوں اور فوجی آدمیوں کو اپنی نقل و حرکت کے راز رکھنے کا پابند بنایا۔ فوجی دستوں کو قبل از وقت کبھی یہ معلوم نہ ہوتا تھا کہ وہ کتنے عرصے کے لئے اور ہاں جا رہے ہیں۔ |