کتاب و سنت کی رو سے اسلامی تصور جنگ کے بارے میں جن اہم باتوں کا پتہ چلتا ہے ان کا خلاصہ درج ذیل ہے: 1. جنگ ظلم و استبداد کے انسداد کی خاطر، ظالم کو اس کے ظلم سے روکنے دینے یا اس کا پنجۂ ستم توڑ دینے کے لئے اور منظلوم، ضعیف و ناتوان افرادِ انسانیت کی حمایت کی خاطر لڑی جا سکتی ہے۔ 2. فتنہ و فساد کے خاتمے کے لئے بھی جنگ کی اجازت ہے۔ 3. ملت و ریاست کے تحفظ و دفاع کی خاطر کہ جب غنیم آپ پر حملہ آور ہو یا حملہ کی تیاری کر رہا ہو، دشمن سے جنگ چھیڑنے کی اجازت ہے۔ 4. فریقِ مخالف پر زیادتی نہیں کی جائے گی اور صلح کو ہر حال میں ترجیح دی جائے گی۔ [1] پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں دس سال کے اندر کم و بیش انیس جنگی محاذوں پر امیر الافواج کے فرائض بذاتِ خود سر انجام دیئے اور پینتیس فوجی مہموں کے لئے امراءِ فوج کا تقرر فرمایا۔ طریقۂ جنگ میں مسلمانوں کی رہنمائی فرمائی۔ فوجوں میں صف بندی کا طریقہ رائج کیا۔ محاذ کی تشکیل دینے کا اسلوب سمجھایا۔ فوجی علم دینے کا سلسلہ رائج کیا۔ پیدل فوج میں فولاد پوش دستوں کی تیاری پھر اسپ سوار دستوں کا تیار کرنا۔ سالارِ افواج کی حفاظت اور اطاعتِ امیر کے اصول اور دوسری ضروری باتیں مسلمانوں کو سمجھائی گئیں۔ احد کے معرکے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی مرتبہ سو سپاہیوں کی زرہ پوش پلٹن قائم کی اور اس کو اتی ترقی دی کہ فتح مکہ کے موقع پر آپ کی پوری فوج جس کی تعداد دس ہزار تھی زرہ پوش مجاہدین پر مشتمل تھی اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ آدمی لوہے کے سمندر یں تیر رہے ہیں۔ وہ امور جن کی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دیا کے عظیم ترین سپہ سالاروں میں لاثانی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک فوجی ماہر کے نقطۂ نگاہ کے مطابق یہ تھے۔ 1. شخصی اخلاق و کردار کے وہ تمام اوصاف و محاسن جو ایک سپہ سالار میں موجود ہونا ضروری ہیں اور جنہیں زمانۂ جدید کے دفاعی ماہرین اس کی شخصیت کا فکری منتہائے کمال سمجھتے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں بہ تمام و کمال موجود تھے۔ قدیم و جدید فوجی ماہرین کی رائے میں سپہ سالار کو اعلیٰ خصائل کا حامل، شخصی طور پر قابلِ تعظیم اور حکومت کی اہلیت کا مالک |