اختیارات محفوظ فرما لئے اور ایک شہری ریاست کی بنیاد رکھ دی۔ دورِ حاضر میں ریاست کے تین اہم شعبے یا اعضاء بیان کیے جاتے ہیں جن کو انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ اگر ریاست کی اس تقسیم کو سامنے رکھتے ہوئے سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک عہد کا جائزہ لیا جائے تو مندرجہ ذیل امور کا پتہ چلتا ہے۔ انتظامیہ: آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم انتظامیہ کے سربراہ تھے۔ اور اس نصب العینی امامت و خلافت کو عملی شکل دینے والے تھے جس کا ذِکر خالقِ کائنات نے قرآنِ حکیم میں کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت جملہ مذہبی و سیاسی اختیارات کی حامل تھی۔ اسلام کا تحفظ و نفاذ، اجرائے قوانینِ اسلامی، صلاح و فلاحِ عامہ، والیوں اور عمال کا تقرر، فوجوں کی تنظیم و قیادت، قبائل کی خانہ جنگیں کا انسداد، اقتصادی انتظامات، اجرائے فرامین، امورِ خارجہ۔ دیگر اقوام و مصالحت و معاہدے، عہدہ داروں کی خبر گیری اور احتساب، نو مسلموں کے انتظامات، تبلیغی خطوط و وفود و ارسال کرنا، تعلیم کا بندوبست اور دیگر اہم امور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی نگرانی میں سر انجام پاتے تھے۔ عام ملکی قانون قرآنِ حکیم تھا یہ جوں جوں نازل ہوتا جاتا ہادیٔ برحق نبی کی حیثیت سے اس کا ابلاغ کرتے جاتے اور منتظم و سربراہِ ریاست و حکومت کی حیثیت سے اس کا نفاذ کرتے چلے جاتے تھے۔ ریاست کے جو معاملات دین (عبادات) سے تعلق نہیں رکھتے تھے ان میں مشورہ کے لئے باقاعدہ مجالس منعقد کی جاتی تھیں اور باہم تبادلۂ خیال کے بعد کسی نتیجہ پر پہنچا جاتا تھا۔ اہم امور میں باہمی مشاورت کا اصول بنیادی اور مستقل حیثیت اختیار کر چکا تھا۔ قرآنِ حکیم نے وَشَاوِرُھُمْ فِی الْاَمْرِ (۱۵۹:۳) اور وَاَمْرُھُمْ شُوْریٰ بَیْنَھُمْ (۴۲-۳۸) کے واضح ارشادات سے شوریٰ کو لازوال اور مستقل حیثیت دے دی تھی۔ اسی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل نے اسلامی نظامِ سیاست میں اس اصول کو ایک مضبوط رکن کی حیثیت دے دی۔ مقنّنہ: جیسا کہ پہلے بیان ہوا اس نوزائیدہ مملکت کا آئین و قانون اللہ تعالیٰ کی کتاب تھی جو نازل ہو رہی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے رسول اور نمائندے سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم جو مہبطِ وحی و الہام تھے وہ موجود تھے اور یہ آئین و قانون لوگوں تک پہنچا رہے تھے اور اس کا نفاذ عمل میں لا رہے تھے۔ یوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ واحد ہی مقننہ اور اس کی سربراہ تھی۔ مسائلِ شرعیہ میں افتاء کا کام اور معاملات و مذہب میں اجتہاد کا سلسلہ اگرچہ شروع ہو چکا تھا لیکن ابھی اس کا دائرہ وسیع کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی تھی۔ |