(۲۴) اور جب کبھی تم میں کسی چیز کے متعلق اختلاف پیدا ہو تو اللہ تعالیٰ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ (۲۶) اور بنی عوف کے یہودی، ایمانداروں کے ساتھ ایک امت (سیاسی وحدت) تسلیم کیے جاتے ہیں۔ یہودی اپنے دین پر رہیں۔ مسلمان اپنے دین پر رہیں خواہ وہ موالی ہوں یا اصل البتہ جو لوگ ظلم اور جرم کے مرتکب ہوں گے وہ اپنی ذات یا گھرانے کے سوا کسی کو ہلاکت و فساد میں نہیں ڈالیں گے۔ (۲۷-۳۶) مندرجہ بالا حقوق دیگر یہودی قبائل کو حاصل ہوں گے۔ (۳۷) اور یہ کہ ان میں (یہود) سے کوئی بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر جنگ کے لئے نہیں نکلے گا۔ (۴۲) یہودی اس وقت تک مصارف برداشت کرتے رہیں گے جب تک وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر شریکِ جنگ رہیں گے۔ (۴۶) اس صحیفہ کو قبول کرنے والوں کے درمیان کوئی نیا معاملہ یا جھگڑا پیدا ہو جس پر فساد رونما ہونے کا خطرہ ہو تو اسے اللہ تعالیٰ کی طرف اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹایا جائے گا۔ (۴۷) نہ قریش کو پناہ دی جائے گی اور نہ اس شخص کو جو ان کا معاون ہو۔ (۴۸) اگر کوئی یثرب پر حملہ آور ہو تو ان معاہد فریقوں پر ایک دوسرے کی امداد و نصرت لازم ہو گی۔ (۵۲) اس معاہدہ کی خلاف ورزی ظالم اور مفسد کے سوا اور کوئی شخص نہیں کر سکتا۔ جو شخص مدینہ میں خلوص اور امن کے ساتھ سکونت رکھے یا خلوص اور امن کے ساتھ کسی دوسری جگہ منتقل ہونا چاہئے اس پر کوئی مواخذہ نہیں۔ لیکن فساد اور شرارت کرنے کے لئے قیامِ مدینہ اور یہاں سے ترکِ سکونت دونوں پر گرفت ہے۔ (۵۳) جو شخص متقی، بھلائی کا طلب گار اور عہد و اقرار میں وفا شعار ہے، اللہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کے حامی و خیر اندیش ہیں ۔ [1] اس دستاویز کے مندرجات پر ایک سرسری نظر سے ہی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس کی بدولت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لئے عدالتی، تشریعی، فوجی، تنفیذی اور دیگر سیاسی |