اور صاحبِ کتاب الامول ابو عبید القاسم بن سلام نے اپنی کتابوں میں محفوظ کر رکھا ہے ۔[1] میثاق کی پہلی ۲۳ دفعات مہاجرین و انصار سے متعلق قواعد پر مشتمل ہیں اور بقیہ حصہ مدینے کے یہودی قبائل کے حقوق و فرائض سے بحث کرتا ہے۔ ان دونوں میں ایک جملہ دہرایا گیا ہے کہ آخری عدالتِ مرافعہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہو گی۔ اختصار پسندی کے پیش نظر ذیل میں اس معاہدہ کی چند اہم دفعات کا ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ نوشتہ یا دستاویز ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جو نبی ہیں، قریش اور اہلِ یثرب میں سے ایمان داروں، اطاعت گزاروں نیز ان لوگوں کے درمیان جو ان کے تابع ہوں، ان کے ساتھ شامل ہو جائیں اور ان کے ہمراہ جہاد میں حصہ لیں۔ (۱) دوسرے لوگوں کے بالمقابل وہ ایک امت (سیاسی وحدت) ہوں گے۔ (۲-۱۰) قریشی مہاجرین، بنو عوف، بنو ساعدہ، بنو جشم، بنو حارث، بنو نجار، بنو النّبیب، بنو عمرو بن عوف اور بنو اوس اپنے اپنے دستور کے مطابق خوں بہا ادا کریں گے اور ہر گروہ اپنے قیدی خود فدیہ دے کر چھڑائے گا تاکہ ایمانداروں کا برتاؤ باہم نیکی اور انصاف کا ہو۔ (۱۱) اور ایمان دار لوگ کسی مفلس اور زیر بار شخص کو مدد دیئے بغیر نہ چھوڑیں گے تاکہ اس کا فدیہ یا خوں بہا بخوبی ادا ہو سکے۔ (۱۳) اور متقی، ایماندار ہر اس شخص کی مخالفت پر کمربستہ رہیں گے جو ان میں سے سرکشی کرے، ظلم، گناہ یا زیادتی کا مرتکب ہو یا ایمان دار لوگوں میں فساد پھیلائے۔ ان سب کے ہاتھ ایسے شخص کی مخالفت میں ایک ساتھ اُٹھیں گے خواہ وہ ان میں سے کسی کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔ (۱۷) ایمانداروں کی صلح ایک ہی ہو گی۔ اللہ کی راہ میں ہو تو کوئی مومن کسی دوسرے مومن کو چھوڑ کر دشمن سے صلح نہیں کرے گا جب تک یہ صلح سب کے لئے برابر نہ ہو۔ (۲۱) اور کوئی مشرک قریشِ مکہ کو یا ان کے مال کو پناہ نہیں دے گا اور نہ ہی اس سلسلے میں کسی اہلِ ایمان کے لئے رکاوٹ بنے گا۔ (۲۲) جو شخص کسی مومن کو ناحق قتل کرے گا اور گواہوں سے اس کا ثبوت مل جائے گا تو اس سے قصاص لیا جائے گا۔ |