اور شورہ پشتوں یا ایسے لوگوں کے سوا جن کے دل کی آنکھیں دعوتِ حق کی فتوحات اور کامرانیوں ہی سے کھل سکتی تھیں اور کوئی باقی نہ رہا تھا اور اب یہ دعوت نئے مرکز کو منتقل ہونے کو تھی جہاں اُسے ایک اسٹیٹ کی روح رواں بننا تھا۔ اب تک اس دعوت کا دائرہ عقائد و نظریات کو دلوں میں راسخ کرنے اور انفرادی اخلاق و کردار کی اصلاح تک محدود تھا۔ آئندہ اس کی بنیادوں پر ایک ایسی مملکت تعمیر کی جانے والی تھی جسے رہتی دنیا تک قوموں اور ملکوں کے لئے ہدایت و رہنمائی کا نمونہ بننا تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے حضور بلا کر وہ اصول عطا کئے جن پر مدینہ کی اسلامی ریاست اور مسلم معاشرہ قائم کیا جانے والا تھا۔ یہ اصول سیاست، اخلاق، تمدن، معاشرت، معیشت، تجارت، تعلیم غرض ہر شعبۂ زندگی سے متعلق تھے۔ ان میں بتایا گیا تھا کہ ایک اسلامی ریاست میں اقتدار اعلیٰ کا مالک اللہ کی ذات ستودہ صفات ہے۔ اسی شاہنشاہ کی بندگی اور غلامی اس ریاست کا مقصودِ وجود ہونا چاہئے۔ تمدن میں خاندان کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور افراد خاندان کے باہمی خوشگوار تعلقات پر ہی اس تمدن کی مضبوطی اور قوت کا انحصار ہے۔ معاشرہ کے مختلف طبقات باہم ہمدرد، بہی خواہ اور مصائب و آلام میں مددگار بننے چاہئیں دولت کے ضیاع، بخل اور اسراف سے بچ کر معیشت کی بنیادیں استوار کرنی چاہئیں۔ وسائل رزق کا جو انتظام اللہ نے کر دیا ہے اس کو بعینہ برقرار رکھنا چاہئے۔ معاشی مشکلات اور رزق کی کمی کے خوف سے افزائشِ نسل کی روک تھام نہیں کرنی چاہئے کہ رزق کی کنجیاں اللہ کے ہات میں ہیں، جو تمہیں رزق دیتا ہے وہی آنے والی نسلوں کو بھی دے گا۔ نہ صرف فواحش اور بدکاری کے دروازے کلیۃً بند کر دینے چاہئیں بلکہ ایسا ماحول پیدا کرنا چاہئے جس سے یہ دروازے کھلنے ہی نہ پائیں۔ انسانی جان کا احترام کرنا چاہئے اور حق کے بغیر کسی انسان کا خون نہیں بہانا چاہئے، عہد و پیمان کا پاس کرنا چاہئے کہ اس کی اللہ کے ہاں جوابدہی کرنا ہو گی۔ تجارت، صدق و دیانت اور ٹھیک ٹھیک ناپ تول پر مبنی ہونی چاہئے۔ نظامِ تعلیم کی بنیاد وہم و گمان کے بجائے علم پر کھنی چاہئے۔ غرور و نخوت سے بچنا چاہئے۔ یہ تھے انسان کی حیاتِ اجتماعی کے وہ اصول جو معراج کی بابرکت اور عظیم رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے نوعِ انسان کو دیئے گئے۔ ان اصولوں پر مدینہ کی جو اسلامی ریاست قائم ہوئی اور جو اسلامی معاشرہ وجود میں آیا تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ وہ ایک ایسا معاشرہ تھا جو ایک اللہ کے سوا کسی کے آگے سرنگوں نہ ہوتا تھا، جس کے افراد سگے بھائیوں سے زیادہ ایک دوسرے کے ہمدرد، بہی خواہ اور مددگار تھے، جو پاکیزگیٔ فکر و نظر اور طہارتِ اخلاق و کردار کاپیکر تھے، جو تجارت، |