Maktaba Wahhabi

52 - 198
انسانی قافلے ایک قدم بھی راہِ راست پر چل نہیں سکتے۔ لیکن یہ حیرت ناک بات ہے کہ انسان کی عملی زندگی کے لئے یہ مہتمم بالشان واقعہ جتنی اہمیت اپنے دامن میں رکھتا ہے، اتنا ہی اس کو عقل و دانش کی پیچیدگیوں اور افسانہ پسندیوں میں گم کر دیا گیا ہے۔ اغیار تو اغیار ہیں، وہ اگر اس عظیم واقعہ کے ظہور کا انکار کریں تو یہ انکار سمجھ میں آسکتا ہے کہ جو رولِ صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر یقین و ایمان نہیں رکھتے، وہ شب اسریٰ میں رونما ہونے والے اس واقعہ کو کیوں کر تسلیم کر سکتے ہیں۔ کور بین آنکھ اگر روشنی کے وجود ہی سے انکار کرتی ہے تو وہ اس منبع پر کیسے ایمان لے آئے گی جس سے نور کی کریں پھوٹ پھوٹ کر ایک عالم کو منور کر رہی ہیں۔ گرنہ بیند بروز شپرّہ چشم چشمۂ آفتاب راچہ گنا مگر اپنوں نے کچھ خرد کی داماندگیوں اور کچھ غیروں سے ذہنی مرعوبیت کی بنا پر اس واقعہ کو جس طرح تاویلات کا گورکھ دھندا بنا ڈالا ہے،وہ زیادہ افسوسناک ہے۔ ایمان و صدیقیت کا ایک عالم وہ تھا کہ جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے قریشِ مکہ شب اسریٰ کی واردات کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’لو تمہارے صاحب یہ تو کہتے ہی تھے کہ ان پر آسمان سے وحی نازل ہوتی ہے، آج انہوں نے یہ خبر سنائی ہے کہ وہ راتوں رات بیت المقدس اور آسمان کی سیر کر آئے ہیں تو یہ مردِ مومن جو حقیقت حال سے بے خبر تھے، کسی تذبذب اور تامّل کے بغیر جواب دیتے ہیں کہ جو کچھ تم کہتے ہو اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمایا ہے تو میں گواہی دیتا ہوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سچ فرماتے ہیں۔ اور ایک حالت یہ ہے کہ مدتوں سے ذہنی و فکری موشگافیاں جاری ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جسدِ عنصری کے ساتھ معراج پر تشریف لے گئے تھے یا یہ عالمِ خواب کا واقعہ تھا۔ آج جب کہ انسان سپوتنگ اور مصنوعی سیاروں کے ذریعے چاند اور مریخ پر پہنچا اور آسمان میں تھگلی لگایا چاہتا ہے شاید ان لوگوں کے لئے جن کی خرد معراج کی اصل حقیقت سے بہرہ یاب ہونے سے قاصر تھی، بصیرت افروزی کا کوئی سامان مل جائے۔ لیکن اس فکری موشگافی اور بحثہم بحثی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ امت کی نظر سے معراج کی اصل اہمیت اوجھل ہو گئی اس کے علماء ذہنی کشتی میں مصروف رہے اور اس کے عوام نے اسے اپنی خوش عقیدگی کا سرمایہ بنا لیا۔ معراج کا واقعہ جس وقت پیش آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوتِ حق دیتے ہوئے گیارہ برس گزر چکے تھے۔ مکہ میں جن سعید روحوں کو اس دعوت پر لبیک کہنی تھی، وہ کہہ چکی تھیں اور اب متمر دین
Flag Counter