معیشت، معاشرت اور سیاست غرض زندگی کی ہر کسوٹی پر کھرا سونا تھے۔ جن کے عہد و پیمان پر دشمن بھی اعتماد کرتا تھا اور جن کی زندگی سادگی، فیاضی، خوفِ خدا اور مسئولیتِ آخرت کے احساس سے عبادت تھی اور جو ریاست وجود میں آئی وہ امن و امان، نظم و ضبط، عدل و قسط، انسانی مساوات اور نر عمل کی ہم آہنگی کا ایک دل پذیر مرقع تھی۔ جہاں جاہلی امتیازات اور طبقاتی تفریقات ناپید تھیں اور حکمران اور عوام ایک ہی قانون کے تحت زندگی بسر کرتے تھے۔ جہاں اگر کوئی امتیاز تھا تو ان نظریات عقائد پر ایمان اور عمل کی بنیاد پر تھا جس پر یہ ریاست اور معاشرہ قائم تھا۔ شبِ معراج کی سب سے بڑی اہمیت یہی ہے اور آج بھی اس کے دامن میں کوئی پیغام مسلمانوں کے لئے ہے تو یہی کہ جو اصولِ اخلاق و تمدّن اللہ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بارگاہ میں بلاکر عطا کیے تھے ان پر وہ اپنے معاشرہ اور ریاست کی بنیادوں کو از سرِ نو استوار کریں۔ دنیا کو آج بھی ان اصولوں کی ویسی ہی ضرورت ہے، جیسی ضرورت اس وقت تھی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سفرِ معراج پر بلایا گیا۔ بلکہ دنیا سے پہلے خود مسلمانوں کو ضرورت ہے۔ وہ جہاں آزاد ہیں وہاں اپنے نفس و خواہشات کی بندگی کر رہے ہیں اور جہاں محکوم ہیں وہاں اغیار کے آگے سرنگوں ہیں۔ ان کا معاشرہ پراگندگی اور عناد کا شکار ہے۔ ایک دوسرے کی ہمدردی، بہی خواہی اور دکھ سکھ میں موانست قصۂ ماضی بن چکا ہے۔ ان کا تمدن جن بنیادوں پر قائم تھا وہ ایک ایک کر کے ڈھے چکی ہیں۔ فواحش، بدکاری اور بے یائی کا ایک طوفان ہے جو اُمڈ آرہا ہے۔ بھائی بھائی کے خون کا پیاسا ہے۔ مسلمان کی جان بغیر کسی حق کے مباح قرار پا چکی ہے۔ بخل اور اسراف نے ان کی معیشت کو تہہ و بالا کر رکھا ہے۔ اللہ کی رزاقّیت پر سے ان کا ایمان اٹھ چکا ہے اور ہر جگہ وہ قتلِ اولاد کے منصوبے تیار کر رہے ہیں۔ بد دیانتی اور بد عہدی، جہالت اور وہم و گمان کی پیروی اور غرور و تکبر ان کی قومی خصوصیات بن چکی ہیں۔ اخلاقی قدریں ایک ایک کر کے دم توڑتی جا رہی ہیں۔ ان کی زندگی اسی پیغام کو اپنانے میں ہے، جو شبِ معراج ان کو دیتی ہے۔ سَرَيْتَ مِنْ حَرَمٍ لَيْلاً إلى حَرَمٍ كَمَا سَرَى الْبَدْرُ فِي دَاجٍ مِنَ الظُّلمِ وَبِتَّ تَرْقى إلى أنْ نِلْتَ مَنزِلَةً من قَابِ قَوْسَيْنِ لَمْ تُدْرَكْ وَلمْ تُرَم وأنتَ تخترق السبعَ الطِّباقَ بهمْ في مَوْكِبٍ كنْتَ فيهِ صاحِبَ العَلَمِ حَتَّى إذَا لَمْ تَدَعْ شَأواً لِمُسْتَبِقٍ مِنَ الذُّنُوّ ولا مَرْقَى لِمُسْتَنِمِ یَارَبِّ صَلِّ وَسَلِّمْ دَائِمًا اَبَدًا عَلَیٰ حَبِیْبِکَ خَیْرِ الْخَلْقِ کُلِّھِمٖ (امام بصیری رحمہ اللہ ) |