Maktaba Wahhabi

48 - 198
گا کہ یہ سب سے لڑ سکیں۔ اس لئے مجبوراً خوں بہا پر فیصلہ کرنے کے لئے راضی ہو جائیں گے۔ اس رائے کو سب نے پسند کیا۔ قتل کے لئے آدمی بھی نامزد ہو گئے اور قتل کا وقت بھی مقرر کر دیا گیا۔ حتیٰ کہ جو رات اس کام کے لئے تجویز کی گئی تھی اس میں ٹھیک وقت پر قاتلوں کا گروہ اپنی ڈیوٹی پر پہنچ بھی گیا لیکن۔۔۔ ہجرت: آپ صلی اللہ علیہ وسلم عین اس وقت رات کو، جو قتل کے لئے مقرر کی گئی تھی، مکہ سے نکل کر مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد دو دو چار چار کر کے پہلے ہی مدینہ میں جا چکی تھی۔ مکہ میں صرف وہی مسلمان رہ گئے تھے جو بالکل بے بس تھے یا جو صرف دل میں ایمان چھپائے ہوئے تھے اور ان پر کوئی بھروسہ نہ کیا جا سکتا تھا۔ اس حالت میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ آپ کو قتل کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک رفیق حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر مکہ سے نکلے اور اس خیال سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعاقب ضرور کیا جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی راہ چھوڑ کر جو شمال کی جانب تھی، جنوب کی راہ اختیار کی۔ یہاں تین دن تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم غارِ ثور میں چھپے رہے۔ خون کے پیاسے دشمن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر طرف ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔ اطرافِ مکہ کی وادیوں کا کوئی گوشہ انہوں نے نہ چھوڑا جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش نہ کیا ہو۔ اسی سلسلہ میں ایک مرتبہ ان میں سے چند لوگ عین اس غار کے دہانے پر بھی پہنچ گئے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم چھپے ہوئے تھے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو سخت خوف لاحق ہوا کہ اگر ان لوگوں میں سے کسی نے ذرا آگے بڑھ کر جھانک لیا تو وہ ہمیں دیکھ لے گا۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اطمینان میں ذرا فرق نہ آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو یہ کہہ کر تسکین دی کہ ’غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘ ہجرت مسلمانوں کا شعار ہے اور خداوند تعالیٰ کی جانب سے اپنے ماننے والوں کی صداقت اور عزم و ہمت جانچنے کا طریقہ۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ ہجرت فرمائی تو سب مسلمان آہستہ آہستہ مکہ چھوڑ کر مدینہ آئے اس مرحلہ پر مومنین کو جس سخت آزمائش سے گزرنا پڑا اور اس آزمائش سے جس جرأت و ہمت سے وہ گزر گئے وہ تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ جس ظلم کے ساتھ یہ لوگ نکالے گئے اس کا اندازہ کرنے کے لئے ذیل کے چند واقعات ملاحظہ ہوں۔ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ رومی جب ہجرت کرنے لگے تو کفارِ قریش نے ان سے کہا کہ تم یہاں خالی ہاتھ آئے تھے اور اب خوب مالدار ہ گئے ہو۔ تم جانا چاہو تو خالی ہاتھ ہی جا سکتے ہو، اپنا مال نہیں لے جا سکتے۔ حالانکہ انہوں نے جو کچھ کمایا تھا اپنے ہاتھ کی محنت سے کمایا تھا۔ کسی کا دیا نہیں کھاتے تھے۔ آخر وہ غریب دامن جھاڑ کر کھڑے ہو گئے اور سب کچھ ظالموں کے حوالے کر کے اس حال میں مدینے پہنچے کہ تن کے کپڑوں کے سوا ان کے پاس کچھ نہ تھا۔
Flag Counter