شام کی طرف جو تجارتی شاہراہ ساحلِ بحرِ احمر کے کنارے کنارے جاتی تھی اور جس کے محفوظ رہنے پر قریش اور دوسرے بڑے بڑے مشرک قبائل کی معاشی زندگی کا انحصار تھا وہ مسلمانوں کی زد میں آجاتی تھی اور اس شہ رگ پر ہاتھ ڈال کر مسلمان نظامِ جاہلی کی زندگی دشوار کر سکتے تھے۔ صرف اہلِ مکہ کی وہ تجارت جو اس شاہ راہ کے بل پر چلتی تھی، ڈھائی لاکھ اشرفی سالانہ تک پہنچتی تھی۔ طائف اور دوسرے مقامات کی تجارت اس کے ما سوا تھی۔ قریش ان نتائج کو خوب سمجھتے تھے۔ جس رات بیعتِ عقبہ واقع ہوئی اسی رات اس معاملہ کی بھنک اہلِ مکہ کے کانوں میں پڑی اور پڑتے ہی کھلبلی مچ گئی۔ پہلے تو انہوں نے اہلِ مدینہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے توڑنے کی کوشش کی۔ پھر جب مسلمان ایک ایک دو و کر کے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے لگ تو قریش کو یقین ہو گیا کہ اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہاں منتقل ہو جائیں گے۔ اور وہ اس خطرے کو روکنے کے لئے آخری چارۂ کار اختیار کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ قتل کا منصوبہ: یہ اس موقعے کا ذِکر ہے جب کہ قریش کا یہ اندیشہ یقین کی حد کو پہنچ چکا تھا کہ اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی مدینے چلے جائیں گے۔ اس وقت وہ آپس میں کہنے لگے کہ اگر یہ شخص مکہ سے نکل گیا تو پھر خطرہ ہمارے قابو سے باہر ہو جائے گا۔ چنانچہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملہ میں آخری فیصلہ کرنے کے لئے دار النّدوہ میں تمام رؤسائے قوم کا ایک اجتماع کیا اور اس پر باہم مشاورت کی کہ اس خطرے کا سدِّ باب کس طرح کیا جائے۔ ایک فریق کی رائے یہ تھی کہ اس شخص کو بیڑیاں پہنا کر ایک جگہ قید کر دیا جائے اور جیتے جی رہا نہ کیا جائے، لیکن اس رائے کو قبول نہ کیا گیا۔ کیونکہ کہنے والوں نے کہا کہ اگر ہم نے اسے قید کر دیا تو اس کے ساتھی قید خانے سے باہر ہوں گے وہ برابر اپنا کام کرتے رہیں گے اور جب ذرا بھی قوت پکڑ لیں گے تو اسے چھڑانے کے لئے جان کی بازی لگانے میں بھی دریغ نہیں کریں گے۔ دوسرے فریق کی رائے یہ تھی کہ اسے اپنے ہاں سے نکال دو پھر جب یہ ہمارے درمیان نہ رہے تو ہمیں اسے سے کچھ بحث نہیں کہ کہاں رہتا ہے اور کیا کرتا ہے۔ بہرحال اس کے وجود سے ہمارے نظامِ زندگی میں خلل پڑنا تو بند ہو جائے گا۔ لیکن اسے بھی یہ کہہ کر رد کر دیا گیا کہ یہ شخص جادو بیان آدمی ہے۔ دلوں کو موہ لینے میں اسے بلا کا کمال حاصل ہے۔ اگر یہ یہاں سے نکل گیا تو نامعلوم عرب کے کن کن قبیلوں کو اپنا پیرو بنا لے گا اور پھر کتنی قوت حاصل کر کے قلبِ عرب کو اپنے اقتدار میں لانے کے لئے حملہ آور ہو گا۔ آخر کار ابو جہل نے یہ رائے پیش کی کہ ہم اپنے تمام قبیلوں میں سے ایک ایک عالی نسب تیز دست جوان منتخب کریں اور یہ سب مل کر یکبارگی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ٹوٹ پڑیں اور اسے قتل کر دیں۔ اس طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خون تمام قبیلوں پر تقسیم ہو جائے گا اور بنی عبد مناف کے لئے ناممکن ہو جائے |