یہ تھے کہ ایک چھوٹا سا قصبہ اپنے آپ کو پورے ملک کی تلواروں اور معاشی و تمدنی بائیکاٹ کے مقابلہ میں پیش کر رہا تھا۔ چنانچہ بیعتِ عقبہ کے موقع پر رات کی اس مجلس میں اسلام کے ان مددگاروں (انصار) نے اس نتیجہ کو خوب اچھی طرح جان بوجھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہاتھ دیا تھا۔ عین اس وقت جب کہ بیعت ہو رہی تھی یثربی وفد کے ایک نوجوان رکن اسد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے جو پورے وفد میں سب سے کم سن شخص تھا اُٹھ کر کہا: ’ٹھہرو اے اہل یثرب! ہم لوگ ان کے پاس آئے ہیں تو یہ سمجھتے ہوئے آئے ہیں کہ یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور انہیں یہاں سے نکال کر لے جانا عرب سے دشمنی مول لینا ہے اس کے نتیجہ میں تمہارے نونہال قتل ہوں گے اور تلواریں تم پر برسیں گی۔ لہٰذا اگر تم اس کو برداشت کرنے کی طاقت اپنے اندر پاتے ہو تو ان کا ہاتھ پکڑو اور اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے اور اگر تمہیں اپنی جانیں عزیز ہیں تو پھر چھوڑ دو اور صاف صاف عذر کر دو۔ کیونکہ اس وقت عذر کر دینا خدا کے نزدیک زیادہ قابلِ قبول ہو سکتا ہے۔‘‘ اس بات کو وفد کے ایک دوسرے شخص عباس بن عبادہ بن نضلہ نے دہرایا: ’’جانتے ہو اس شخص سے کس چیز پر بیعت کر رہے ہو؟‘‘ (آوازیں) ’’ہاں ہم جانتے ہیں‘‘ ’’تم اس کے ہاتھ پر بیعت کر کے دنیا بھر سے لڑائی مول لے رہے ہو۔ پس اگر تمہارا خیال یہ ہو کہ جب تمہارا مال تباہی کے اور تمہارے اشراف ہلاکت کے خطرے میں پڑ جائیں تو تم اسے دشمنوں کے حوالے کر دو گے تو بہتر ہے آج ہی اسے چھوڑ دو۔ کیونکہ خدا کی قسم یہ دنیا اور آخرت کی رسوائی ہے اور اگر تمہارا ارادہ یہ ہے کہ جو بلاوا تم اس شخص کو دے رہے ہو اس کو اپنے اموال کی تباہی اور اپنے اشراف کی ہلاکت کے باوجود تباہ کر سکو گے تو بیشک اس کا ہاتھ تھام لو کہ خدا کی قسم یہ دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے۔‘‘ اس پر تمام وفد نے بالاتفاق کہا (ترجمہ) ’’ہم اسے لے کر اپنے اموال کی تباہی اور اپنے اشراف کو ہلاکت میں ڈالنے کے لئے تیار ہیں۔‘‘ تب وہ مشہور بیعت واقع ہوئی جسے تاریخ میں بیعتِ عقبہ ثانیہ کہتے ہیں۔ قریش کے لئے ہجرت کے نتائج: دوسری طرف اہلِ مکہ کے لئے یہ معاملہ، جو معنی رکھتا تھا۔ وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہ تھا۔ دراصل اس طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جن کی زبردست شخصیت اور غیر معمولی قابلیت سے قریش کے لوگ واقف ہو چکے تھے، ایک ٹھکانا میسر آرہا تھا اور ان کی قیادت و رہنمائی میں پیروانِ اسلام، جن کی عزیمت و استقامات اور فدائیت کو بھی قریش ایک حد تک آزما چکے تھے، ایک منظم جتھے کی صورت میں جمع ہوئے جاتے تھے۔ یہ پرانے نظام کے لئے موت کا پیغام تھا۔ نیز مدینہ جیسے مقام پر مسلمانوں کی اس طاقت کو مجتمع ہوتے دیکھ کر قریش کو مزید خطرہ یہ تھا کہ یمن سے |