کے سامنے دوہرایا تو جعفر بن ابی طالب نے اٹھ کر بلا تامّل کہا کہ ’’ھُوَ عَبْدُ اللهِ ورسوله وروحه وكلمته ألقاها إلٰي مريم العذراء البتول‘‘’’وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور اس کی طرف سے ایک روح اور ایک کلمہ ہیں جسے اللہ نے کنواری مریم پر القا کیا۔‘‘ نجاشی نے سن کر ایک تنکا زمین سے اُٹھایا اور کہا ’خدا کی قسم جو کچھ تم کہتے ہو عیسیٰ علیہ السلام اس سے ایک تنکے کے برابر بھی زیادہ نہیں تھے۔‘ اس کے بعد نجاشی نے قریش کے بھیجے ہوئے تمام ہدیے یہ کہہ کر واپس کر دیئے کہ میں رشوت نہیں لیتا اور مہاجرین سے کہا کہ تم بالکل اطمینان سے رہو۔ ہے ترکِ وطن سنتِ محبوبِ الٰہی صلی اللہ علیہ وسلم : مخالفینِ دعوت کی طرف سے مزاحمت پوری شدت اختیار کر چکی ہے۔ وہ نبی اور پیروانِ نبی کو اپنے درمیان برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ان سے اب یہ امید باقی نہیں رہی ہے کہ تفہیم و تلقین سے راہِ راست پر آجائیں گے اب انہیں انجام سے خبر دار کرنے کا موقع آگیا ہے جو نبی علیہ السلام کو آخری اور قطعی طور پر رد کر دینے کی صورت میں انہیں لازماً دیکھنا ہو گا۔ اس انجام کا آغاز ہجرت سے ہوا۔ جس میں نبی علیہ السلام نے اس زمین کو چھوڑ دیا، جو دعوتِ حق کے لئے بنجر ہو گئی تھی اور پھر آٹھ سال بعد اس میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے۔ مکی دور کے آخری تین چار سالوں میں یثرب میں اسلام کی شعاعیں مسلسل پہنچ رہی تھیں اور وہاں کے لوگ متعدد وجوہ سے عرب کے دوسرے قبیلوں کی بہ نسبت زیادہ آسانی کے ساتھ اس روشنی کو قبول کرتے جا رہے تھے۔ آخر کار نبوت کے بارہویں سال حج کے موقع پر ۷۵ نفوس کا ایک وفد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی تاریکی میں ملا اور اس نے نہ صرف یہ کہ اسلام قبولکیا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرووں کو اپنے شہر میں جگہ دینے پر بھی آمادگی ظاہر کی۔ یہ اسلام کی تاریخ میں ایک انقلابی موقع تھا، جسے خدا نے اپنی عنایت سے فراہم کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہات بڑھا کر پکڑ لیا۔ اہلِ یثرب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو محض ایک پناہ گزین کی حیثیت سے نہیں بلکہ خدا کے نائب اور اپنے امام و فرمانروا کی حیثیت سے بلا رہے تھے اور اسلام کے پیروؤں کو ان کا بلاوا اس لئے نہ تھا کہ وہ ایک اجنبی سرزمین میں محض مہاجر ہونے کی حیثیت سے جگہ پا لیں بلکہ مقصد یہ تھا کہ عرب کے مختلف قبائل اور خطوں میں جو مسلمان منتشر ہیں۔ وہ یثرب میں جمع ہو کر اور یثربی مسلمانوں سے مل کر ایک منظم معاشرہ بنا لیں۔ اس طرح یثرب نے دراصل خود اپنے آپ کو مدینۃ الاسلام کی حیثیت سے پیش کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول کر کے عرب میں پہلا دار السلام بنا لیا۔ عرب کو چیلنج: اس پیش کش کے معنی جو کچھ تھے اس سے اہلِ مدینہ ناواقف نہ تھے۔ اس کے صاف معنی |