Maktaba Wahhabi

44 - 198
نہیں کروں گا، جن لوگوں نے دوسرے ملکوں کو چھوڑ کر میرے ملک پر اعتماد کیا اور یہاں پناہ لینے کے لئے آئے۔ اُن سے بے وفائی نہیں کر سکتا۔ پہلے میں انہیں بلا کر تحقیق کروں گا کہ یہ لوگ ان کے بارے میں جو کچھ کہتے ہیں اس کی حقیقت کیا ہے۔‘‘ چنانچہ نجاشی نے اصحابِ رسول اللہ ۔ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دربار میں بلا بھیجا۔ نجاشی کے دربار میں: نجاشی کا پیغام پا کر سب مہاجرین یکجا ہوئے اور انہوں نے باہم مشورہ کیا کہ بادشاہ کے سامنے کیا کہنا ہے۔ آخر سب نے بالاتفاق یہ فیصلہ کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تعلیم ہمیں دی ہے ہم تو وہی بے کم و کاست پیش کریں گے۔ خواہ نجاشی ہمیں نکال دے یا رکھے۔ دربار میں پہنچے تو چھوٹتے ہی نجاشی نے سوال کیا کہ ’’تم لوگوں نے کیا کیا کہ اپنی قوم کا دین بھی چھوڑا اور میرے دین میں بھی داخل نہ ہوئے نہ دنیا کے دوسرے ادیان ہی میں سے کسی کو اختیار کیا؟ آخر یہ تمہارا اپنا دین ہے کیا؟‘‘ اس پر مہاجرین کی طرف سے جعفر رضی اللہ عنہ بن ابی طالب نے ایک برجستہ تقریر کی جس میں عرب کی دینی، اخلاقی و معاشرتی خرابیوں کو بیان کیا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا ذکر کر کے بتایا کہ آپ کیا تعلیمات پیش فرماتے ہیں، پھر ان مظالم کا ذِکر کیا جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے والوں پر قریش کے لوگ ڈھا رہے ہیں۔ اور اپنا کلام اس بات پر ختم کیا کہ دوسرے ملکوں کی بجائے ہم نے آپ کے ملک کا رُخ اس امید پر کیا ہے کہ یہاں ہم پر ظلم نہ ہو گا۔‘‘ نجاشی نے تقریر سن کر کہا کہ ذرا مجھے وہ کلام سناؤ، جو تم کہتے ہو کہ خدا کی طرف سے تمہارے نبی پر اُترا ہے۔ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے جواب میں سورہ مریم کا وہ ابتدائی حصہ سنایا جو حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام سے متعلق ہے۔ نجاشی اس کو سنتا رہا او روتا رہا۔ یہاں تک کہ اس کی داڑھی تر ہو گئی۔ جب حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے تلاوت ختم کی تو اس نے کہا۔ ’یقیناً یہ کلام اور جو کچھ عیسیٰ علیہالسلام لائے تھے دونوں ایک ہی سر چشمے سے نکلے ہیں۔ خدا کی قسم میں تمہیں ان لوگوں کے حوالے نہیں کروں گا۔‘ دوسرے روز عمرو بن العاص نے نجاشی سے کہا کہ ذرا ان لوگوں کو بلا کر یہ تو پوچھیے کہ عیسیٰ علیہ السلام بن مریم علیہا السلام کے بارے میں ان کا عقیدہ کیا ہے‘ یہ لوگ ان کے متعلق ایک بری بات کہتے ہیں۔ نجاشی نے پھر مہاجرین کو بلا بھیجا۔ مہاجرین کو پہلے عمرو کی چال کا علم ہو چکا تھا۔ انہوں نے جمع ہو کر پھر مشورہ کیا کہ اگر نجاشی نے عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں سوال کیا تو کیا جواب دو گے؟ موقع بڑا نازک تھا اور سب پریشان تھے مگر پھر اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فیصلہ کیا کہ جو کچھ ہوتا ہے ہو جائے ہم تو وہی بات کہیں گے جو اللہ نے فرمائی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی۔ چنانچہ جب یہ لوگ دربار میں گئے تو نجاشی نے عمرو بن العاص کا پیش کردہ سوال اُن
Flag Counter