حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسا جلالی خلیفہ اور محترم ترین صحابی رسول اللہ، جن کے عدل، دانش اور تدبّر نے اقوامِ عالم سے خراجِ تحسین حاصل کیا۔ ان کی ذات پر فخر کرتے تھے اور انہیں ’’سیدنا‘‘ کے لقب سے یاد کر کے خوش ہوتے۔ اور فخر کرتے تھے۔ حضرت صہیب [1]رومی كا حال كس نے نہیں سنا؟ بہرحال،ہر ولایت و ملک کے لوگ جو معلّمِ اخلاق و انسانیت کے دربارمیں پہنچے، انسان بن گئے، ہے کوئی انسان تاریخِ انسانیت میں موجود؟ جس کو مثال کے طور پر بھی، اس انسانیتِ کبریٰ کے مقام پر فائز انسانِ کامل کے سامنے لایا جا سکے؟ تاریخ اس کے جواب و مثال سے آج تک قاصر ہے اور قاصر رہے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تاریخ نے ہیبت و دبدبہ، رعب و جلال والی سینکڑوں ہستیاں اور ان کے کارنامے اپنے صفحات میں محفوظ رکھے ہیں، مگر انسانِ کامل، جو ایک طرف شہنشاہتو دوسری طرف بوریہ نشین مسکین، ایک طرف فوجی جنرل و قائد تو دوسری طرف داعیٔ امن و سلامتیٔ انسنا، صفحۂ ہستی پر ہویدا نہیں کیا، نہ زمانے نے پیدا کیا ہے۔ نسلی عصبیت کا پیکرِ خاکی، دوسروں کے جان و مال، عزت و آبرو کا پاسبان بن جائے، وہ، یا ظلم و استبداد سے اقوام کے گلے میں غلامی کا طوق، اور ان کی پیٹھ پر پابندیوں کا بوجھ ڈال کر سر غرور فخر سے بلند کرنے والا، دونوں میں کون افضل ہے؟ تاریخ کا فیصلہ موجود ہے میرے کہنے کی ضرورت نہیں، جس قوم کا وطیرہ قتل و غارت ہو، فخر و غرور ہو اس میں یہ انقلاب ایّام ہو جائے کہ قریشی ہاتھ باندھ کر پیچھے کھڑا ہو، اور غلام قوم کا ایک فرد ان کا امام ہو۔ اُم المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے اگر زید زندہ ہوتے تو خلافت میرے باپ کی بجائے انہیں ملتی۔ مسلم کی حدیث میں رسول اللہ کی ایک دعا ضبط تحریر میں آئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر جو رات کو پچھلے پہر اکثر جاری رہتی تھی کہ: اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْئَلُکَ الخ [2] |