اسے تسلی دی تو اس کے رونے کی آواز بند ہو گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا ’اس کے رونے کا سبب یہ تھا کہ یہ پہلے خدا کا ذکر سنا کرتا تھا ۔‘‘ [1] کھجوروں کے ڈھیر کا بڑھ جانا: ایک دفعہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے والد کے ذمے یہودیوں کا قرض تھا اور وہ خود فوت ہو گئے ہیں۔ میرے پاس سوائے کھجوروں کے اور کچھ نہیں ہے اور صرف کھجوروں سے میں کئی برس تک قرض ادا نہیں کر سکتا۔ آپ میرے نخلستان میں تشریف لے چلیں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم سے قرض خواہ مجھ پر سختی نہ کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ تشریف لے گئے اور کھجورں کے ڈھیر کے ارد گرد چر لگا کر دعا کی اور وہیں بیٹھ کر فرمایا ’’قرض خواہ اپنا اپنا قرض لیتے جائیں۔‘‘ آپ کی دعا کی برکت سے ان کھجوروں کے ڈھیر سے سارا قرض ادا ہو گیا اور کھجوروں کا ایک بڑا ڈھیر پھر بھی باقی بچ رہا۔[2] انگلیوں سے پانی کا چشمہ بہنا: صلح حدیبیہ کے روز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سخت پیاس لگی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے چمڑے کے ایک برتن میں کچھ پانی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے وضو کرنا شروع کیا تو تمام صحابہ رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تیزی سے بڑھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ’’کیا بات ہے؟‘‘ عرض کرنے لگے۔ ’’ہماری ضروریات کے لئے صرف یہی پانی تھا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے اندر ہاتھ ڈال دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے درمیان سے چشمے کی طرف پانی جاری ہو گیا۔ ڈیڑھ ہزار کے قریب صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس پانی سے وضو کیا اور سیر ہو کر پانی بھی پیا۔ [3] نام بنام مقتولینِ بدر کی خبر: معرکۂ بدر سے کچھ دیر قبل حضور صلی اللہ علیہ وسلم میدانِ بدر میں صحابہ رضی اللہ عنہم کو ساتھ لے گئے اور فرمایا۔ ’’یہاں فلاں کافر ہلاک ہو گا اور وہاں فلاں مشرک مارا جائے گا اور قریش کے سردار ابو جہل کی قتل گاہ یہ ہے۔‘‘ صحابہ رضی اللہ عنہم کے قلیل اور کم مسلّح لشکر کے لئے یہ پیشین گوئی بڑے اطمینان کا سبب بنی اور انہوں نے جنگ کے بعد دیکھا کہ حضور نے صلی اللہ علیہ وسلم جس مقتول کے لئے جو جگہ متعین فرمائی تھی وہ وہیں ڈھیر تھا۔[4] سلطنتِ کسریٰ کی تباہی: جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوتِ اسلام کے لئے |