Maktaba Wahhabi

170 - 198
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا [1] پھر یہ ’کتابِ ہدایت‘ روز اوّل سے محفوظ و مصئون ہے۔ اس میں آج تک کسی ایک نقطے اور کسی ایک شوشے تک کی تحریف نہیں ہوئی اور نہ ہی کبھی ہو سکتی ہے۔ اس کی حفاظت و صیانت کا ذمہ خود پروردگار عالم نے لے رکھا ہے۔ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَه لَحَافِظُوْنَ[2] اس سے بڑھ کر یہ کہ اس ’’نسخۂ کیمیا‘‘ کو دنیا کے سامنے لانے والی شخصیت ایک اُمّی کی شخصیت تھی جس نے کسی سے لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا تھا۔ جس نے کسی کے آگے زانوئے تلمّذ تہہ نہیں کیا تھا، اس نے سب کے سامنے علم و حکمت اور موعظت و معرفت کا وہ عظیم الشان دفتر پیش کر دیا جس نے دل و دماغ بدل ڈالے، ذہنیتیں بدل ڈالیں، رواج بدل ڈالے، رسوم بدل ڈالیں، افراد بدل ڈالے، اقوام بدل ڈالیں، تمدّن بدل ڈالے اور تہذیبیں بدل ڈالیں۔ جس نے عرب کے ریگستانوں میں رہنے والے خانہ بدوش شتر بانوں کو اصولِ جہانبانی سکھائے اور وقت کے قیصر و کسریٰ کے تخت پر بٹھا دیا۔ جس نے درماندگانِ عقل و خرد کو کائنات کے ذرّے ذرے کی حقیقت سے آشنا کر دیا۔ شقِّ قمر: کفارِ مکہ نے ایک بار رات کے وقت مقامِ منیٰ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے معجزہ طلب کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلی کے اشارے سے چاند کو دو ٹکڑے کر دکھایا۔ ایک ٹکڑا کوہِ حرا کے اس طرف نظر آیا اور دوسرا اُس طرف ۔[3] یہ دیکھ کر کفارِ مکہ نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم پر جادو کر دیا ہے۔ بعض کہنے لگے کہ اگر ہم پر جادو کر دیا ہے تو تم تمام دنیا پر تو وہ جادو نہیں کر سکتے۔ چنانچہ دیگر مقامات سے آئے ہوئے مسافروں سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے بھی یہی مشاہدہ بیان کر دیا ۔ [4] ستون کا رونا: مسجد نبوی میں منبر تیار ہونے سے قبل حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں کھجور کے تنے کے ایک ستون سے ٹیک لگا کر خطبہ دیا کرتے تھے خطبہ دیا کرتے تھے۔ جب منبر تیار ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر کھڑے ہو کر جمعہ کا خطبہ ینا شروع کیا تو اچانک اس ستون سے زار و قطار رونے کی آواز آئی۔ تمام حاضرینِ مسجد نے اس کے رونے کی آواز سنی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اتر کر اس ستون کے پاس گئے اور سینے سے لگا کر
Flag Counter