اس کی وجیہہ بھی ارادۂ الٰہی کے ایک عمل سے کی جا سکتی ہے۔ خالقِ کائنات نے مختلف انبیائے کرام کو مختلف حالات و مقتضیات کے تحت مختلف معجزوں سے نوازا تھا۔ کسی کی بددعا نے اس عالم پر طوفان بن کر قیامتِ صغریٰ بپا کر دی تھی۔ کسی کے وجودِ مسعود سے آتشِ نمرود کا الاؤ یکایک گلزار میں تبدیل ہو گیا تھا۔ کسی کی تیز قوّتِ شاّمہ نے سینکڑوں میل دور سے پیراہنِ یوسف علیہ السلام کی خوشبو محسوس کر لی تھی۔ کسی کو ’تاویل الاحادیث‘ کے مخصوص علم سے وافر حصہ ملا تھا۔ کسی کے ہاتھوں میں سخت لوہا موم ہو جاتا تھا۔ کسی کا تختِ سلطنت ہواؤں میں اڑتا پھرتا تھا۔ کسی کے عصا کی ایک ہی ضرب سے پتھروں سے چشمے ابلنے لگتے اور کبھی دریاؤں میں شاہراہیں بن جاتی تھیں۔ کسی کے ’نفسِ مسیحائی‘ سے اندھوں کو بینائی، گونگوں کو گویائی، کوڑھیوں کو صحت اور مردوں کو زندگی مل جاتی تھی لیکن نبی آخر الزمان، مکمل الشرائع و الادیان، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو درگاہِ حق سے سے دوسرے تمام انبیاء سے بڑھ کر معجزات عطا ہوئے تھے اور حقیقت یہ ہے کہ: لِکُلِّ نَبِيٍّ فِي الْاَنَامِ فَضِيْلَةٌ وَجُمْلَتُھَا مَجْمُوْعَةٌ لِمُحَمَّد[1] معجزۂ قرآن: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزۂ قرآن‘ ہے۔ سابقہ انبیاء کرام کے معجزوں کی نوعیت، حیثیت اور تاثیر عارضی اور وقتی تھی مگر آپ کا یہ معجزۂ قرآن اپنی نوعیت و حیثیت کے لحاظ سے دائمی اور تاقیامت باقی رہنے والا ہے۔ اس کی قوتِ تاثیر بنی نوع انسان کے قلوب و اذہان کو قیامت تک مسخر کرتی رہے گی۔ یہ کتاب ہر لحاظ سے معجزہ ہے۔ اس کے الفاظ و معانی، اس کی فصاحت و بلاغت، اس کی تعلیم و ہدایت، اس کا زورِ استدلال اور اس کی قوّتِ نفوذ و تاثیر سب معجزہ ہیں۔ دیا اس کے مثل کلام لانے سے بے بس ہے۔ اس کی یہی صفتِ اعجاز تھی جس سے عرب و عجم کے بڑے بڑے فصحاء و بلغاء اور شعراء و ادباء تک کی زبانیں گنگ ہو گئی تھیں جب اُن کے سامنے اس نے اپنا یہ چیلنج رکھ دیا تھا کہ اِنْ کُنْتُمْ فِيْ رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِثْلِه وَادْعُوْا شُھَدَآءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ [2] اور اس چیلنج کا جواب دینے سے دنیا ہمیشہ قاصر رہی ہے اور قیامت تک قاصر رہے گی۔ |