Maktaba Wahhabi

212 - 256
سناؤں کس کو بات اے سکھی ری کہ کس نے جو بن دکھا کے مارا کہت ہے سب جگ جسے محمد اسی نے نیہا لگا کے مارا (بہار یثرب از فضل الدین) اگرچہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت و محبت کا بیان مسلمان عورت کے لیے بھی اسی طرح لازمۂ ایمان ہے جس طرح مسلمان مرد کے لیے ہے لیکن نعتیہ مضامین میں ہندی اثرات کے تحت مذکورہ اشعار کے انداز میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مطلوبہ احترام اور شائستگی کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے، نیز یہی رنگ ڈھنگ فضل الدین کے ان اشعار میں بھی شامل ہو گیا ہے: مجھے اس کی کھبر نہ تھی شام سندر ، جِیالے کے پھراؤ گے اپنی نجر یہاں اپنا مرن ہے جگت کی ہنسی، تو مدینہ نگر کو بسا بیٹھا سپنے میں دکھا کر پیاری چھب ، موہے مار گیا اے شاہِ عرب بدنام بھئی یوں پِیت میں اب ، سنسار ہنسے توری جوگن کو ان شعروں کا ماحول ہندی گیتوں سے بالکل مختلف نہیں ۔ ان میں ’’ جو بن دکھا کے مارا ‘‘ اور ’’جِیالے کے پھراؤ گے اپنی نجر‘‘ سوئے ادب کی انتہا ہیں اور یہ کہنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت اور تعلق (نعوذ باللّٰہ) بدنامی اور جگ ہنسائی کا باعث ہے ۔ یہ ہندی گیتوں کی اندھی پیروی کا نتیجہ ہے ۔ امجد حیدر آبادی کی نظم بھی اسی انداز کی ہے: آئی بِرہ کی ماری تیرے لیے بروگن درشن سے اپنے کردے دل شاد، چشم روشن ہاں کب سے رو رہی ہوں میں رکھ کے منہ پہ دامن کب سے کھڑی ہے داتا در پہ ترے بھکارن
Flag Counter