متصوّفانہ نظریہ’’وحدت الوجود‘‘ نصاریٰ کے ’’تثلیث‘‘ اور عجمی فلسفۂ ہمہ اوست[1] کے زیر اثر تجسیمِ باری تعالیٰ بصورت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مضمون باندھے جانے لگے۔ جیسے:
خدا کی صورت کوئی نہیں اور خدا کی صورت کوئی اگر ہے
تو وہ حریفِ نقوشِ تصویر، تیری صورت میں جلوہ گر ہے
(تاجور نجیب آبادی)
غلافِ کعبہ میں جس نور کا لمعہ دیکھا
مدینہ میں وہ بچشمِ یقیں برملا دیکھا
(ذکیؔ دہلوی)
طورِ سینا کی تجلی ہے مگر ٹھنڈی ہے
حُسنِ حضرتؐ میں یہ اِک اور اچنبھا دیکھا
(تمنّا مراد آبادی)
ستم در ستم یہ کہ پھر تو کھلے بندوں اور صریح و صاف لفظوں میں ’’ابن اللہ‘‘ کی ریس میں توحید کے سراسر منافی یہ دعوے کیے جانے لگے:
وہی جو مستویٔ عرش تھا ’’خدا‘‘ ہو کر
اتر پڑا وہ مدینے میں ’’مصطفی‘‘ ہو کر
(عاصیؔ غازی پوری)
|