Maktaba Wahhabi

145 - 256
نے بھی اس روایت کو اپنی کتاب میں درج کیا ہے، (بلا تحقیق) بغیر سند کے ذکر کیا ہے۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ ان اصحاب نے یہ روایت خود المصنَّف میں نہیں دیکھی بلکہ نقل درنقل کرتے چلے گئے۔ بہرحال ایسی ہی بے اصل روایات اور ان کی بودی تشریحات کی بنیاد پر اشرف الانبیاء، سید البشر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کی نفی اور ’’مجسم نور‘‘ ہونے کا اثبات شاعروں کا روایتی اور مرغوب ترین موضوع بن گیا، جیسے: ’’محمد‘‘ وہ جمالِ اوّلیں وہ ’’پیکرِ نوری‘‘ ’’محمد‘‘ کاشفِ سرِّ ظہور و رمز مستوری (حفیظ جالندھری) تمھارے جلوۂ رخ میں جھلک ہے ’’نورِ خالق‘‘ کی مرے اس قول پر صادق حدیثِ ’’مَنْ رَّاٰنيِ‘‘ ہے (نظامی بد ایونی) عرش و کرسی جب عدم تھے جلوہ گستر کون تھا؟ سامنے خالق کے جز ’’نورِ پیمبر‘‘ کون تھا؟ (تسلیم لکھنوی) حیرت ہے کہ برصغیر میں اپنے آپ کو توحیدی مکتب فکر کے حامل گرداننے والے مولانا قاسم نانوتوی بھی اس گنجلک نظریہ کے حامی نظر آتے ہیں جب وہ کہتے ہیں: سب سے پہلے مشیّت کے انوار سے نقشِ روئے محمد بنایا گیا پھر اسی نقش سے مانگ کر روشنی بزمِ کون و مکاں کو سجایا گیا
Flag Counter