دیکھوں اور اپنے آپ پر خود کو شیدا کروں تو اُس نے اپنے آپ کو ’’نور‘‘ میں مٹا کر اپنا نام ’’احمد‘‘ رکھا۔ اور اپنے نور کی تجلّیٔ لمسی، یعنی اپنے حبیب کے ظاہری جسم کا نمونہ بنا کر چھونے والی صورت کی طرح عالم ناسوت، یعنی دنیا کے بازار میں آگیا، اس لیے بالکل فاش الفاظ میں اپنے عشق و محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میرا نور، میرا محبوب صلی اللہ علیہ وسلم میری ذات کا جمال ہے اور مجھ میں اور میرے محبوب میں کوئی دوئی نہیں چونکہ میں خود اپنے محبوب کے دیدارمیں محو ہوگیا ہوں، اس لیے میری الگ پہچان کرنی بالکل بے سود اور ایک وہم ہے۔ جب تک کہ میرے محبوب کی اوّل پہچان نہ کروگے تو ’’احد‘‘ اور ’’احمد‘‘ کے راز کو نہ بوجھ سکو گے۔‘‘
آپ نے غور فرمایا کہ نورمن نور اللّٰہ کا پس منظر کس قدر غیر منطقی اور گنجلک ہے کہ ’’تثلیث‘‘ کا مفروضہ اختراع کرنے والوں کی طرح کہنا پڑے گا: ’’ اس کو عقل سے سمجھنے کی کوشش کرنا فضول ہے۔‘‘
’’ائمۂ اہل سنت نے اس عقیدے کو ہر دور میں باطل قرار دیا ہے چونکہ اہل بدعت کے اس عقیدہ پر دلیل نہ تھی اور یہ قرآن وحدیث سے متصادم بھی ہے، اس لیے اس پر اہل بدعت کو دلیل پیش کرنے کی فکر دامن گیر ہوئی تو پھر کیا تھا! ایک دوڑ شروع ہوگئی لیکن دلیل لاتے کہاں سے؟ آخر انھوں نے ’أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُورِي‘ جیسی روایت وضع کرکے بزعم خویش دلیل کی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی۔ چند متاخرین سیرت نگار حضرات نے اس من گھڑت روایت کا انتساب امام عبدالرزاق صنعانی کی طرف کردیا، اس لیے کہ ان کی کتاب ’اَلْمُصنَّف‘ اہل علم کے ایک مخصوص حلقہ میں معروف اور متداول تھی لیکن ضخیم ہونے کی وجہ سے عوام کی دسترس سے باہرتھی کہ وہ ان (اہل بدعت) کی مذکورہ من گھڑت روایت کی تحقیق کرلیتے۔ کمال یہ ہے کہ اصحاب سِیَرْ میں سے جس
|