اور تابعین عظام رحمۃ اللہ علیہم کے دور میں کوئی شخص ایسا نہ تھا جس کا عقیدہ ہو کہ رسول اللہ مبدأ خلق اور نور سے پیدا ہوئے ہیں۔ ان زرّیں ادوار کے بعد کذابوں نے اس عقیدے کو رواج دینے کی کوشش کی کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نور ہیں۔
دراصل یہ عقیدہ (تثلیث کا چربہ ہے جو) بعض حضرات نے چُرا کر اپنے ائمہ پر چسپاں کر دیا کہ ائمۂ اہل بیت[1] کی پیدائش نور سے ہوئی ہے۔
اسی باطل عقیدہ کے تانے بانے کا ملغوبہ صوفیاء حضرات کے ذریعے عام مسلمانوں میں پھیل گیا۔ جیسے پیر غلام محمد صابری چشتی قادری نظامی اپنی کتاب ’’نور واحدیّت‘‘ میں تحریر کرتے ہیں:’’ذاتِ باری تعالیٰ ایک مخفی خزانہ تھا۔ جب اُس نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں تو اپنی خاص صفاتی طاقت سے کام لے کر کائنات کو مع ان کے جسموں اور ناموں
کے خلق کیا تو سب سے اوّل وہ ذات تعالیٰ اپنی طاقت سمیت اس اپنی صفاتی قوّت کے ہمراہ ایک تجلی کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اس تجلّیٔ ذاتی کو تمام مذاہب نے اپنے اپنے
خیال کے مطابق مختلف نام دیے، کسی نے ’’اوتار‘‘ کانام دیا، کسی نے ’’ خدا کا بیٹا‘‘ قرار دیا۔ (کسی نے ’’خدا کا نور‘‘ کہا۔) … چنانچہ اُس سلطانِ لایزال، یعنی ذات تعالیٰ نے جب چاہاکہ خلوت خانۂ غیب سے کائنات کے بازارِ ظہور میں آکر اپنی نوری حضوری والی تجلّی کا تماشا
|