ٍنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کرنے کی استدعا کرنا بھی ثابت نہیں۔ یہ بھی عجمی شعراء ہی کا خاصہ ہے اور جیسا کہ عرض کیا گیا کہ یہ ایک بدعتی اور شرکیہ انداز ہے۔ اس سلسلے میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا وہ واقعہ یاد آتا ہے جب وہ نمازِ استسقا کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضر ت عباس رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بارش کی دعا کرنے کے لیے ساتھ لے گئے۔[1] اگر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کرنے کی التجا[2] کا عقیدہ رکھتے تو ضرور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی استدعا کرتے مگر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہی کے باعث جانتے تھے کہ وفات کے بعد انبیاء علیہم السلام سے بھی کوئی التجا نہیں کی جاسکتی۔
اب جبکہ مسلمانوں کو بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی ہستی دعا سننے والی یا مصائب و مشکلات دور کرنے والی نظر نہ آئے تو پھر اللہ تعالیٰ کی اہمیت و عظمت اور کس کے ہاں ملے گی؟ ارشاد باری ہے Ē مَّا لَكُمْ لَا تَرْجُونَ للّٰهِ وَقَارًا Ě’’تمھیں کیا ہوگیا ہے؟ تمھارے نزدیک اللہ تعالیٰ کا کوئی جلال اور وقار ہی نہیں۔‘‘[3]
جبکہ:
اللہ کا ثانی ہے نہ کوئی ہمسر
پیغام یہ لائے ہیں سبھی پیمبر
مت اس کے سوا کسی کو مشکل میں پکار
لَا تَدْعُ مَـعَ اللّٰهِ اِلٰـھًا اٰخَر(علیم ناصری)
|