ہمیں پھر اپنی فضیلتیں دے، نوازشیں دے
محبتیں دے، عنایتیں دے، نوازشیں دے
رسولِ اکرم! حضورصلعم!
ہمیں یقیں ہے
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ آپ کی بات مانتا ہے
تمام دنیاؤں، سب جہانوں میں آپ سے بڑھ کے کوئی پیارا کہیں نہیں ہے
خدا کا ایسا کوئی دلارا کہیں نہیں ہے
خدا سے کہیے!
خدارا اپنے بزرگ و برتر خدا سے کہیے!
کہ ہم کو اپنی عنایتِ خاص سے نوازے
مذکورہ تمام شعراء کا نقطۂ انتہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کرنے کی استدعا پر ہی منتج ہوتا ہے۔ ان شعراء کا یہ انداز بھی حرام، بدعتی اور شرکیہ ہے جس سے احتراز واجب ہے، البتہ ہندوستانی مسلمان یہاں کے ہندو مذہب سے خاصے متاثر ہوئے اوران کے عقائد و افکار میں ہندوانہ رنگ و آہنگ نے جگہ پائی۔ دیوی دیوتاؤں کی سرزمین پر مسلمانوں نے بھی ہندوؤں کی دیکھا دیکھی اپنے اکابر اور پیروں کو مافوق الفطرت ہستیاں ثابت کرنے میں بے سروپا حکایات و روایات کا سہارا لیا اورانھی کی طرح اپنے اولیاء اور بزرگوں کو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا بنا کر پیش کیا۔ اس طرح بزرگوں سے بر تر ہستی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی تو اور بھی زیادہ حاجت روائی کا منبع تصور کی گئی، لہٰذا نعت گوؤں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت ومنقبت اسی طرح کہنی شروع کردی جیسے ہندو کرشن جی کے بھجن کہتے تھے۔
یہاں یہ گزارش کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ قرونِ اولیٰ کی عربی نعتیہ شاعری میں
|