اسی طرح حسنؔ لطیفی لکھتے ہیں:
تھے عُقابی شان کے جن کے ’’غبانہ‘‘ اور ’’عقال‘‘
آج ہیں وہ گوسفندوں سے بھی بے ہنگم تریں
جو مجاہد تھے وہ مذہب کے مجاور رہ گئے
جو کبھی شاہیں تھے اب ہے شان ان کی کرگسیں
جن شتربانوں کی شمشیریں رہیں کشورکشا
وہ خس و خاشاک و خاکستر کے ہیں اب خوشہ چیں
ملتِ بیضا کے حق میں ’’حق‘‘ سے کیجے یہ دعا
رحم کر اس قوم پر ربِّ رحیم الراحمیں
وحدتِ ایمانِ دیرینہ کا کھنچ جائے سماں
بین الاقوامی اخوت سے ہوں یکجاں مومنیں
غلبۂ توحید سے کون و مکاں سب گونج اٹھیں
شش جہت آفاق ہو اسلام کے زیرِنگیں
اور ظہور نظرؔ یوں رقم طراز ہیں:
رسولِ اکرم! حضورصلعم!
خدا سے کہیے!
بزرگ و برتر خدا سے کہیے!
کہ ہم جو اس کی فضیلتوں کو، بشارتوں کو بھلا چکے ہیں
محبتوں کو، عنایتوں کو، نوازشوں کو لٹا چکے ہیں
|