ہمارے اس دور میں تو نعت میں استمداد ایک لازمی عنصر اختیار کرگیا ہے۔
شعراء تو سیرت کی کتابوں کا مطالعہ کیے بغیردھڑا دھڑ نعتوں کے مجموعے شائع کررہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی پہچان حاصل کرنے کی کوئی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مختار کل کا لقب دے رکھا ہے اور کائنات کی ہر چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ٹھہرا دی گئی ہے، حالانکہ یہ سب کچھ قرآن اور احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔دورِ حاضر کے ایک سر بر آوردہ ہمہ جہت شاعر عبدالعزیز خالدؔ نے نعت گوئی میں ایک خاص آہنگ پیدا کیا ہے۔
ان کی اکثر نعتوں میں ملت کی ابتری، مسلمانوں کی بے عملی بلکہ بدعملی، فکرو کردار کی بے راہ روی اور معاشی اور معاشرتی زبوں حالی پر حزن و ملال کی جھلکیاں پائی جاتی ہیں ۔ امت کی فکری الجھنوں اور عملی بے راہ ر و یوں پر استفہام ہے:
کیوں اندلس و ہند ہیں خوں نابہ فشاں
ماتم کریں صِہیَون کی راہیں کس کا؟
لے ڈوبی انھیں ہوس زر و منصب کی
ہر شے ہے مسلمانوں میں ایماں کے سوا
ہے مردِ مسلماں کی ہلاکت کا سبب
آسائش و زینت کی حیاتِ دنیا
معنی خلافت کے ہوئے ذہنوں سے محو
بھولے مسلماں تیری بعثت کا سبب
پھر ہو کسی فاروقِ اعظم کا ظہور
دیتا ہے لَوْ پھر سے شرارِ بُو لہب
|