آگے چل کر وہ لکھتے ہیں کہ جب ہم نے آپ کی تعلیمات سے اغماض برتا تو پستی اور ذلت ہمارا مقدر بن گئی۔ ہم پر زمانہ یوں ہی یورش کررہا ہے جیسے کعبے پر اصحاب فیل چڑھ آئے تھے لیکن ہم آخر آپ کی امت ہونے کے ناطے سے دوسروں کے دست نگر کیوں ہیں؟
تکیہ جس طاقت پہ ہم کو ہے وہ ہے تیری دعا
جو کہ ہے مقبولِ درگاہِ خداوندِ جلیل
ایک اور نظم جس میں وہ حسبِ سابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ کی ہدایت و راہنمائی نے شبِ حیات کی تیرگی دور کردی۔بت گروں نے توحید پرستی سیکھی مگر اب ہم میں پھر وہی دورِ جہالت جاری ہوگیا ہے اور ہم شرعِ مبیں سے دور ہوگئے ہیں:
مرکزِ ثقل سے ستوں شرعِ مبیں کا ہٹ گیا
خطر میں آکے پڑ گیا دینِ قویم کا ثبات
تیری نگاہِ مہرباں ہمیں ذریعۂ فلاح
تیری دعائے مستجاب ہمیں وسیلۂ نجات
حفیظ تائبؔ نے بھی بعض نعتیں اسی نہج پر لکھی ہیں، چنانچہ وہ بھی مولانا حالیؔ اور ظفر علی خاں کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کرنے کی درخواست کرتے ہیں:
پھر اٹھا ہاتھ بہرِ دعا یا نبی!
شاد ہو جائے خلقِ خدا یا نبی!
پھر سرافراز ہو امتِ آخریں
|