افسرِ ملک از سرِ دوناں بکش دامنِ دولت ز زبوناں بکش
خامۂ مفتی کہ چو انگشتِ آز شد زپے لقمہ ربائیئِ دراز
واعظِ پُرگو کہ بہ پستیست بند پایۂ خود کردہ ز منبر بلند
صومعہ را قاعدہ تازہ بکُن رختِ خرابات بند دروازہ کن
بدعتیاں را رہِ سنت نمائے عزلتیاں را رہِ عزمات نمائے
خرقۂ تزویر بصد پارہ کن جانِ مزدور زتن آوارہ کن
شعلہ فگن خرمنِ ابلیس را مہرہ شکن سُبحۂ تلبیس را
ظلمتِ بدعت ہمہ عالم گرفت بلکہ جہاں جامۂ ماتم گرفت
کاش کُند اوجِ عروجت رجوع باز کند نورِ جمالت طلوع
دیدۂ عالم بہ تو روشن شود گلخنِ ہستی بتو گلشن شود
’’اے مدینہ میں محو خواب! نیند سے اٹھیے کہ مشرق و مغرب ویران ہوچلے اور میرے ہاتھوں سے نکل چلے، آپ ظلم و زبردستی کا خاتمہ کردیجیے، دنیا کو سر کشی سے توبہ کی ہمت عطا فرمائیے اوراسلام کی تنگی کا دور پسپا کردیجیے۔ حکمران نازو نعم اختیار کیے ہوئے ہیں اور کمزوروں کی دولت سے دامن بھر رہے ہیں۔ مفتی کا قلم حرص کی انگلی کی طرح لقمہ کے حصول کے لیے دراز ہوگیا ہے۔ خطیب دیکھنے میں واعظ ہے مگر پستیوں میں بند ہوگیا ہے۔ اپنے رتبے کو منبر سے بلند گردانتا ہے۔ عبادت خانے کی بنیادیں از سر نو تعمیر فرمائیے اور ویرانیوں کا دروازہ بند کر دیجیے۔ بدعتیوں کو سنت کا راستہ دکھلائیے اور گوشہ نشینوں کو صحیح راہ کی رہنمائی کیجیے۔ مکاری کے لباس کے سو ٹکڑے کردیجیے اور محنت کش کی روح کو محض بدن کے تقاضوں سے نجات دیجیے۔ بدعت کی تاریکیوں نے پوری دنیا کو اپنی گرفت
|