سر برآور ویں قیامت درمیانِ خلق بیں
دیدہ بردار ایکہ دیدی شوکتِ باب الحرم
قیصرانِ روم سر برخاک و خاقانانِ چیں
خونِ فرزندانِ عمِّ مصطفی شد ریختہ
ہم بر آں خالیکہ سلطاناں نہادندی جبیں
شاعر اس مرثیے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہوکر گزارش کرتا ہے کہ دنیا کے سر پر قیامت گزر گئی ہے۔ ناز نینانِ حرم خون میں نہا گئی ہیں۔ آپ نے بیت الحرام کی شان و شوکت دیکھی تھی جہاں قیصر و خاقان بھی زمین پر بیٹھا کرتے تھے مگر آج وہ جگہ جہاں سلطانوں کے سر جھکا کرتے تھے، وہاں مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زادوں کا خون بہا دیا گیا ہے۔
اس نظم میں شاعر نے تباہی و ہلاکت پر خون کے آنسو بہائے ہیں، البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف تخاطب کا انداز اختیار کیا ہے اور کہیں استمداد نہیں کیا بلکہ احتیاط کا دامن تھامے رکھا ہے مگر بعد کے ادوار میں اس موضوع میں عجمی ممالک کے کچھ مقامی رنگ کی آمیزش ہوتی گئی اور بعض شعرائے عجم کے ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تخاطب کے علاوہ ان سے امداد طلب کرنے کی روایت بھی چل نکلی۔ مولانا جامی (م 898ھ) کی نعتوں میں اس قسم کی چیزیں اکثر ملتی ہیں جو قرآن و حدیث کی بنیادی تعلیم سے ہٹی ہوئی ہیں، چنانچہ چند اشعار پیش کیے جاتے ہیں جن میں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ابتلا و مصائب کے پیش نظر مدد طلب کرتے ہیں:
نعتیہ اشعار
ای بہ سراپردۂ یثرب بہ خواب خیز کہ شد مشرق و مغرب خراب
توبہ دہ از سرکشی ایام را باز خر از ناخوشی اسلام را
|