Maktaba Wahhabi

118 - 256
برپا ہوتی ہیں اور بے شمار صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ان کی نذر ہوجاتے ہیں۔ مزید آگے چل کر فتنہ و فساد کے سلسلوں میں کربلا کا سانحہ، پھر بنو امیہ کے ابتدائی دور کا طویل عرصہ شکست و ریخت کا منظر پیش کرتا ہے۔ مگر نعت میں ان سانحات کی صدائے باز گشت اس رنگ میں سنائی نہیں دیتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے فریاد کی گئی ہو۔ اس سلسلے میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جنگِ جمل و صفین کے وقت حضرت کعب بن زہیر اور حضرت حسّان بن ثابت جیسے عظیم نعت گو شعراء موجود تھے بلکہ حضرت حسّان تو واقعہ کربلا تک بھی ذی حیات تھے مگر ان کے کلام اور خصوصاً نعتیہ قصائدمیں اس رنگ کا کوئی شعر موجود نہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد مانگی گئی ہو۔ اس کے بعد ایک عظیم سانحہ ’’سقوطِ بغداد‘‘ واقع ہوا جس نے اسلامی سلطنت کا تاروپود بکھیر دیا۔ ایشیا کے شمال مشرق سے تاتاریوں کا طوفان ایک سیلِ بے پناہ کی طرح اٹھا۔ بخارا وسمر قند جیسے اسلامی مرکز اس کے سامنے تنکوں کی طرح بہہ گئے۔ سلجوقی اور خوارزمی سلطنتیں دیکھتے ہی دیکھتے سرنگوں ہوگئیں۔ ترکستان اور ایران تاتاریوں کے تسلط میں چلے گئے۔ ہلاکو نے بغداد پر یلغار کی تو اس زوال آمدہ سلطنت کا بوسیدہ محل زلزلے کے پہلے جھٹکے ہی میں زمیں بوس ہوگیا۔ قتل و خون کا وہ بازار گرم ہوا کہ دجلہ کا پانی کئی دنوں تک سرخ بہتا رہا۔ شہر و دیہات زیرو زبر ہوگئے۔ کتب خانے، دارالعلوم اورمساجد ویران ہوگئیں اور پورے عالمِ اسلام کا سکون غارت ہو گیا۔ اس پر سعدیؔ جیسا حسّاس شاعر اس طرح لب کشا ہوا: آسماں را حق بودَ گر خوں بگریہ بر زمیں بر زوالِ ملکِ مستعصم امیر المؤمنیں ای محمد! گر قیامت می برآری سر زخاک
Flag Counter