Maktaba Wahhabi

17 - 335
کی فہرست میں برصغیر کے نامور ماہرِ تعلیم ڈاکٹر ذاکر حسین کا نام بھی آتا ہے، جو اس وقت دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پرنسپل تھے اور تقسیمِ ملک کے بعد آزاد ہندوستان کے نائب صدر اور پھر صدر منتخب کیے گئے۔ (یہ اپنے ملک کے تیسرے صدرتھے) امام الہند حضرت مولانا ابو الکلام آزاد، پروفیسر فضل الرحمن غازی پوری (پرنسپل کلکتہ یونیورسٹی) عالمِ جلیل مولانا اعزاز علی دیوبندی، مولانا فضل حق خیر آبادی،[1] مولانا داود غزنوی، مولانا عبد القادر قصوری اور مولانا ثناء اﷲ امرتسری کے اسماے گرامی بھی مدرسہ رحمانیہ کے کاروانِ زائرین میں شامل تھے۔ برصغیر کے بہت سے رفیع المرتبت حضرات کے علاوہ حجاز، مصر اور دیگر عرب ممالک کے اصحابِ کمال کا ورود بھی اس مدرسے میں ہوا اور انھوں نے اس کے متعلق اپنے تاثرات کا تقریری اور تحریری صورت میں اظہار فرمایا، جو اس کتاب میں مندرج ہیں ۔ عالمِ اسلام میں عربی کے نامور ادیب مولانا عبد العزیز میمنی کی آمد و رفت بھی اس مدرسے میں رہتی تھی۔ ہندوستان کے دیوبندی مسلک کے معروف عالم و مصنف مولانا سعید احمد اکبر آبادی کہا کرتے تھے کہ ہندوستان میں ایک ہی زمانے میں عربی کے تین ادیب
Flag Counter