Maktaba Wahhabi

553 - 855
عبداللہ بن سبا کی کوششوں سے ماؤف ہو کر اس کا معتقد بن چکا تھا اور اس کو عبداللہ بن سبا کی جماعت کہہ سکتے تھے، لیکن اس سبائی جماعت میں چونکہ بہت سے فریب خوردہ مسلمان اپنی سادہ لوحی سے شریک تھے، لہٰذا اصل سبائی جماعت جو بطور تخم کے کام کرتی تھی، وہ صرف چند افراد پر مشتمل تھی اور وہ جس وقت جیسی ضرورت سمجھتی تھی اپنے گروہ میں اسی قسم کے لوگوں کو شامل کر کے انہیں میں سے کسی کو سردار بنا لیتی تھی اور جن لوگوں سے پہلے کام لے رہی تھی ان کو چھوڑ دیتی تھی، یہی سبب تھا کہ سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے قتل میں سبائی جماعت نے تمام بلوائیوں سے کام لیا اور جنگ جمل تک ان کے بڑے حصے سے کام لیتی رہی، جنگ جمل کے بعد سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی مخالفت اور عیب چینی کا کام جب شروع ہوا تو بلوائی لوگوں کا بڑا حصہ اس سبائی جماعت سے الگ تھا۔ یہ لوگ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہے اور اپنی کارگزاریوں اور جاں فشانیوں کی بدولت ان کو دربار خلافت میں کافی رسوخ بھی حاصل ہو گیا، کوفہ میں جب سیّدنا علی نے اقامت اختیار فرمائی تو کوفیوں کے اعتبار و اعتماد نے اور بھی زیادہ ترقی کی، اس طرح قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کا سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں نہ صرف پناہ گزیں بلکہ با اعتبار ہونا اور بھی باعث اس کا ہوا کہ سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو قوت و طاقت حاصل ہوئی، کیونکہ جو لوگ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص لینا ضروری سمجھتے تھے، وہ جب ان قاتلین میں سے بعض کو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں باعزت دیکھتے تھے تو باوجود اس کے کہ ان کو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت تسلیم تھی، پھر بھی سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ شامل ہو جاتے تھے، کیونکہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے خون عثمان رضی اللہ عنہ کا بدلہ لینے کے لیے علم مخالفت بلند کیا تھا۔ امارت مصراور محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ : سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت مصر کی حکومت سے عبداللہ بن سعد کو برطرف کر کے محمد بن ابی حذیفہ مصر پر قبضہ کر چکے تھے، جیسا کہ اوپر مذکور ہو چکا ہے، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد ہی قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کو مصر کا عامل بنا کر مدینہ منورہ سے روانہ کر دیا تھا، قیس بن سعد اپنے ہمراہ صرف سات آدمیوں کو لے کر روانہ ہوئے اور مصر پہنچتے ہی محمد بن ابی حذیفہ رضی اللہ عنہ کو برطرف کر کے خود وہاں کے حاکم بن گئے، مصر میں یزید بن الحراث اور مسلمہ بن مخلد وغیرہ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو خون عثمان رضی اللہ عنہ کا مطالبہ کر رہے تھے، ان لوگوں نے قیس کی بیعت سے اس عذر کے ساتھ انکار کیا کہ ہم کو انتظار کرنے دو کہ خون عثمان رضی اللہ عنہ کا معاملہ کس طرح طے ہوتا ہے، جب یہ معاملہ طے ہو جائے گا اس وقت ہم بیعت کر لیں گے اور جب تک بیعت نہیں کرتے اس وقت تک خاموش ہیں ، تمہاری مخالفت نہ
Flag Counter