Maktaba Wahhabi

77 - 89
پاس جائیں تو میری بات انھیں بھی پہنچائیں ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: ((رُبَّ مُبَلَّغٍ اَوْعَیٰ مِنْ سَامِعٍ))[1] ’’اکثر وہ لوگ جن کو بات پہنچائی جاتی ہے وہ اپنے کانوں سننے والوں سے بھی زیادہ یاداشت والے ہوتے ہیں ۔‘‘ جیسا کہ صحیحین میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجّۃ الوداع کے موقع پر( یومِ عرفہ اور یومِ نحر کو) جو خطبہ دیا، اس میں لوگوں سے فرمایا: ((فَلْیُبَلِّغِ الشَّاہِدُالْغَائِبَ فَرُبَّ مَنْ یُبَلِّغُہٗ اَوْعٰی لَہٗ مِمَّنْ سَمِعَہٗ)) (صحیح بخاری ومسلم) ’’جو لوگ حاضر ہیں وہ غیر موجود لوگوں کو میرا پیغام پہنچائیں ۔اکثر وہ لوگ گوش شنیدہ لوگوں سے زیادہ یاداشت والے ہوتے ہیں ۔‘‘ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت بلا واسطہ خود اپنے کانوں سے سننے والے اور بالواسطہ سننے والے کے لیے حُجّت نہ ہوتی اور یہ قیامت تک کے لیے باقی اور واجبُ العمل نہ ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تبلیغ کرنے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کا حکم نہ فرماتے۔اس سے معلوم ہوا کہ جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مقدّس سے بلا واسطہ خود سنا ہو اور وہ شخص جس تک صحیح اسانید کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت(حدیث) نقل کی گئی ہو۔ان دو نوں طرح کے لوگوں پر سنّت کی حجّت قائم ہوگئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی وفعلی سنّت کو خود محفوظ کیا اوروہ اپنے تابعین تک پہنچائی،اور تابعینِ کرام ؒ نے اپنے بعد آنے والوں
Flag Counter