پیش لفظ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ o مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ o اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن o اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ o صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ o غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ…
اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَ عَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ اَمَّا بَعْدُ رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ وَیَسِّرْلِیْ اَمْرِیْ وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ لِّسَانِیْ یَفْقَہُوْا قَوْلِیْ۔
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ :
تاریخ عالم پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے ہر ملک اور ہر زمانے میں جس قدر نبی، مصلح، پیشوا اور بانیان مذاہب گزرے ہیں ، وہ سب کے سب ایک ذات واجب الوجود[1]کے قائل و معتقد تھے اور سب نے اپنی اپنی جماعت کو اللہ تعالیٰ کی ہستی کا یقین دلانے کی کوشش کی۔ سیّدنا آدم، سیّدنا نوع ، سیّدنا ابراہیم ، سیّدنا موسیٰ علیہم السلام ، سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانوں میں اگرچہ سیکڑوں ، ہزاروں برس کے فاصلے ہیں ، لیکن سب کی تعلیم میں توحید باری تعالیٰ کا مسئلہ مشترک ہے۔
کرشن جی، رام چندر جی، گوتم بدھ اورگورونانک ہندوستان میں ہوئے، کیقبادو زرتشت ایران میں گزرے، کنفیوسس چین میں ، سیّدنا لقمان یونان میں ، سیّدنا یوسف علیہ السلام مصر میں ، سیّدنا لوط علیہ السلام شام و فلسطین میں تھے، لیکن توحید باری تعالیٰ کا مسئلہ سب کی تعلیمات میں موجود ہے۔[2]
دنیا کے قریباً تمام آدمی ، بچے، بوڑھے ، جوان، عورت، مرد، عیسائی ، یہودی وغیرہ اللہ تعالیٰ کو
|