رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گستاخیاں :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ خانہ کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گلے میں چادر ڈال کر اس قدر اینٹھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دم رکنے لگا سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو خبر ہوئی تو آپ رضی اللہ عنہ دوڑتے ہوئے آئے، آپ کو اس کے شر سے بچایا اور قریش سے مخاطب ہو کر کہا کہ : ﴿اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ یَّقُوْلَ رَبِّیَ اللّٰہ﴾’’کیا تم ایک شخص کو اس لیے قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے؟‘‘کفار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دیا مگر سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو لپٹ پڑے اور خوب زدوکوب کیا۔[1]
ایک مرتبہ صحن کعبہ میں قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیر لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی سے پیش آنا چاہا، سیّدنا حارث بن ابی ہالہ کو خبر ہوئی تو دوڑے ہوئے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اشرار کے ہجوم اورشرارت سے بچانا چاہا، کفار نے سیّدنا حارث کو وہیں شہید کر دیا، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر دست درازی کی جرات ان کو نہ ہو سکی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستہ میں جہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت گزرنے والے ہوتے کانٹے بچھا دیئے جاتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت پہنچے۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحن کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے، قریش بھی وہاں بیٹھے تھے، ابوجہل نے کہا فلاں مقام پر اونٹ ذبح ہوا ہے، اس کی اوجھڑی پڑی ہوئی ہے، کوئی اس کو اٹھا کر لائے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے اوپر ڈال دے یہ سن کر عقبہ بن ابی معیط اٹھا اور وہ اوجھڑی اٹھا لایا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر رکھ دی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو توجہ الی اللہ میں خبر بھی نہ ہوئی مگر کفار ہنسی کے مارے لوٹے جاتے تھے،سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بھی وہاں موجود تھے، مگر کفار کا ہجوم دیکھ کر ان کو کچھ جرات نہ ہوئی، اتفاقاً سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا جو بچی تھیں آ گئیں اور انہوں نے آگے بڑھ کر باپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر سے اس اوجھڑی کو پرے سرکایا اور کفار کو بھی برا بھلا کہا۔[2]
|