رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان پر پتھر پھینکے جاتے تھے، گندگی وغیرہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر پر پھینک دیتے تھے، ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے بنو عبدمناف یہ اچھا ہمسائیگی کا حق ادا کر رہے ہو؟[1] کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام شاعر رکھا جاتا تھا، کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساحر کہہ کر پکارا جاتا تھا، کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کاہن کہتے اور کبھی مجنوں کا خطاب دیتے۔
غرض کفار مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت کو تکلیف پہنچانے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کام میں رکاوٹ پیدا کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی پورے عزم و استقلال اور ہمت و جرائت کیساتھ اپنے کام میں مصروف تھے، جب قریش کو اس امر کا یقین ہوگیا کہ ہماری کوششوں سے کوئی حسب منشا نتیجہ پیدا نہیں ہوا تو انہوں نے مجبوراً دوسرا پہلو اختیار کیا۔
صاف جواب:
قریش نے جمع ہو کر مشورہ کیا اور عتبہ بن ربیعہ کو اپنی طرف سے پیغام دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا۔ عتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بڑی نرمی کے ساتھ کہنے لگا :
’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ تم شریف ہو، تمہارا خاندان بھی شریف و معزز ہے، مگر تم نے قوم کے اندر فتنہ ڈال رکھا ہے، [2]یہ بتاؤ کہ آخر تمہارا مقصد کیا ہے؟ اگر تم کو مال و دولت کی
خواہش ہے تو ہم تمہارے واسطے اس قدر مال جمع کیے دیتے ہیں کہ تم سب سے زیادہ مال دار ہو جاؤ گے، اگر تم کو حکومت اور سرداری کی خواہش ہے تو ہم سب تم کو اپنا سردار بنا لینے اور تمہاری حکمت تسلیم کرنے کو تیار ہیں ، اگر تم کو شادی کرنی منظور ہے تو ہم سب سے اعلیٰ گھرانے کی سب سے زیادہ حسین لڑکی سے تمہاری شادی کرائے دیتے ہیں اوراگر ان سب چیزوں کی خواہش ہے تو یہ سب تمہارے لیے فراہم کیے دیتے ہیں ، تم اپنا دلی منشا صاف صاف بیان کر دو ہم تمہاری ہر خواہش پوری کرنے کو تیار ہیں ۔‘‘
عتبہ جب اپنی تقریر ختم کر چکا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً سورۂ حم سجدہ تلاوت فرمانی شروع کی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت پر پہنچے کہ ﴿فَاِِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنذَرْتُکُمْ صَاعِقَۃً مِّثْلَ صَاعِقَۃِ عَادٍ
|