Maktaba Wahhabi

79 - 346
علمائے کرام کے سروں پر(جو جمعیت علماے ہند سے تعلق رکھتے تھے)حضرت مفتی صاحب کا ہاتھ تھا۔حضرت مفتی صاحب کے مدرسہ امینیہ کی جو دہلی میں جاری کیا گیا تھا، ملک میں بڑی شہرت تھی۔اس مدرسے سے بے شمار لوگوں نے تعلیم حاصل کی۔ حضرت مفتی صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے اور دہلی میں جمعیت علماے ہند کے دفتر میں ان کی زیارت کرنے کا شرف اس فقیر کو بھی حاصل ہوا تھا۔میں نے دیکھا کہ حضرت مولانا سید محمد داؤد غزنوی، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا احمد سعید دہلوی رحمہم اللہ اور دیگر بڑے بڑے علماے کرام واقعتا ان کے سامنے مؤب بیٹھے تھے۔ یہاں یہ یاد رہے کہ مفتی کفایت اللہ صاحب کے آبا و اجداد دراصل یمنی تھے۔ہندوستان آکر ان کے ایک بزرگ نے نائی کا پیشہ اختیار کیا۔اس کا ایک خاص تاریخی پسِ منظر ہے، جس کے یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں، لیکن ہماری اسلامی تاریخ میں یہ کوئی حیران کن بات نہیں ہے۔کتنے ہی تیل بیچنے والے، کپڑا بننے والے، کپڑا رنگنے والے، جوتا گانٹھنے والے فقیہ اور محدث ہوئے اور پھر وہ نساج، خصاف،حلاج، دباغ، زیات، حلوائی وغیرہ کہلائے۔ بہرحال عرض یہ کرنا ہے کہ مولانا احمد الدین گکھڑوی کا خاندانی پسِ منظر اسلامی اورمعاشرتی تاریخ کی رو سے بہت شان دار ہے۔ ذات برادی پر فخر کرنا نہ اخلاقی اعتبار سے درست ہے اور نہ شرعی اعتبار سے اسے کوئی اہمیت حاصل ہے۔کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو دینوی لحاظ سے اونچے خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن عمل وکردار میں نہایت پست ذہنیت کے مالک ہیں۔اسی طرح بے شمار لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ ان کا شمار چھوٹی برادریوں میں ہوتا ہے، لیکن اللہ نے ان کو بلند مرتبے پر فائز کیا اور وہ علم وعمل کی دنیا میں بے حد ممتاز گردانے گئے۔ ٭٭٭
Flag Counter