Maktaba Wahhabi

281 - 346
جانے کے بعد انہی کے کام آنے والی ہیں۔ یہ راقم کی ان سے آخری ملاقات تھی۔فرمانے لگے، مولانا محمد عطاء اللہ حنیف ہماری جماعت کے بہت بڑے محقق ومدبر عالم ہیں، کاش کہ ان کی خدمات سے جماعت متمتع ہوتی، لیکن چند جاہ پسندوں کی وجہ سے جماعت جس موڑ پر پہنچ گئی ہے، وہ نہایت قابلِ افسوس ہے۔ راقم الحروف اجازت لے کر واپس آنے لگا تو فرمانے لگے مولانا محمد عطاء اللہ صاحب کی خدمت میں میرا بہت بہت سلام عرض کرنا اور درخواستِ دعابھی… میں آخری سلام عرض کرکے رات کو لاہور واپس آگیا اور تقریباً آٹھ دن کے بعد آپ کی وفات کی خبر آگئی۔إنا للّٰه وإنا إلیہ راجعون۔ مولانا محمد سلیمان کی تحریر ختم ہوئی جو قارئین ذی اکرام نے پڑھ لی۔ واقعہ یہ ہے کہ مولانا احمدالدین کا جنازہ گکھڑ کی تاریخ کا بہت بڑا جنازہ تھا۔مولانا مرحوم کے بھتیجے مرزا محمد یونس نے ایک خط میں بتایا کہ مولانا کا جنازہ ڈی، سی ہائی سکول کی فٹ بال گراؤنڈ میں حافظ محمد یوسف گکھڑوی نے پڑھایا تھا۔پوری گراؤنڈ لوگوں سے بھری ہوئی تھی۔گکھڑ کی تاریخ کا یہ سب سے بڑا جنازہ تھا۔جنازے میں لوگوں کا اتنا بڑا ازدحام دیکھ کر ہماری گلی کے ایک شخص چودھری نذر احمد پٹواری جو مولانا کے ہم عمر تھے، اونچی اونچی رو رہے تھے اور کہہ رہے تھے: ’’احمدالدین! سانوں تاں پتا اج لگا اے کہ توں کی ایں۔‘‘ احمد الدین ہمیں تو آج پتا چلا ہے کہ تم کتنے بڑے آدمی ہو۔ یہی مرزا محمد یونس مولانا احمد الدین کی کتابوں کے متعلق بتاتے ہیں کہ مولانا کی وفات کے بعد ان کی تمام کتابیں ہماری تایا زاد بہن لے گئی تھی، جس کی شادی
Flag Counter