Maktaba Wahhabi

273 - 346
اہلِ سنت والجماعت یعنی اہلِ حدیث کے لیے نا قابلِ تلافی المیہ ہے۔کون سا شخص ہے جو آپ کی وفات سے محزون اور کون سا ایسا دل ہے جو آپ کی وفات سے مغموم نہیں۔جب آپ کا جنازہ پڑھا جا رہا تھا تو راقم الحروف نے خود دیکھا کہ سیکڑوں آنکھیں فرطِ غم سے اشک بار تھیں اور لوگ ہچکیاں اور سسکیاں بھر رہے تھے۔اللہ تعالیٰ مرحوم کی بشری کوتاہیوں کو معاف کرے اور انھیں اپنے جو ارِ رحمت میں جگہ دے۔ خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را مولانا احمد الدین کے والدماجد کا نام حاجی اللہ دتا تھا جو حداد برادری سے تعلق رکھتے تھے۔آپ اپنے ننھیال کے ہاں مقام جھاں والا میں 1900ء میں پیدا ہوئے۔’’جھاں والا‘‘(تحصیل وزیر آباد ضلع گوجراں والا)میں ایک گاؤں ہے۔مولانا نے ہوش سنبھالتے ہی اپنے والد صاحب کے ساتھ گکھڑ(ضلع گوجراں والا)میں اپنے آبا و اجداد کی صنعت سیکھ لی۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انھیں شروع سے ہی کام کرنے کی عادت پڑ گئی تھی۔سستی و کاہلی سے نفرت تھی۔چنانچہ مولانا مرحوم نے اپنی آبائی صنعت میں اچھی خاصی مہارت حاصل کرلی اور اس کے ساتھ ساتھ دل میں حصولِ تعلیم کا شوق پیدا ہوا۔محنت و مزدوری کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کے حصول میں بھی پوری دلچسپی لینی شروع کر دی۔ذہانت، حافظہ، بیدار مغزی اور مستقل مزاجی یہ وہ خداداد اوصاف تھے جو ان میں پائے جاتے تھے۔حصولِ تعلیم کا شوق روز بروز بڑھتا گیا، یہاں تک کہ پوری توجہ علوم وفنون کے حصول کی طرف ہو گئی۔ ایامِ طفولیت میں ہی کتب ہائے فارسی خصوصاً ’’کریما‘‘،(شیخ عطار)، ’’گلستان و بوستان‘‘ مکمل اور ’’سکندر نامے‘‘ کے دیباچے تک کا علم استاذِ مکرم میاں محکم دین مرحوم سے حاصل کیا۔بعد ازاں سید محمد حسین سے ابواب الصرف کے تمام
Flag Counter