کے متعلق پتا چلتا ہے کہ علم وعمل میں اس کا کیا مقام تھا اور اس کی بات چیت کا کیا انداز تھا، مجلس میں وہ کس طرح پیش آتا تھا اور اس کے کس قسم کے لوگوں سے مراسم تھے۔ مولانا احمد الدین گکھڑوی چوں کہ عالمِ دین تھے اور مناظرانہ ذہن رکھتے تھے، اس لیے گفتگو میں عام طور پر ان کے اس ذہن کی عکاسی ہو جاتی تھی اور جو لوگ اس فن سے دلچسپی رکھتے ہیں، وہ ان کی اس قسم کی باتوں سے خوش ہوتے تھے۔مناظر کسی سے کوئی بات کرے تو وہ آسانی سے سمجھ جاتا ہے کہ اس کا مخاطب کس ذہن کا مالک ہے اور اس سے کس اسلوب سے بات کرنی چاہیے۔ مولانا محمد رفیق سلفی سے مولانا احمدالدین کے مراسم رہے تھے، اس لیے انھیں ان کے ان واقعات کا علم ہے جو ان کے سامنے رونما ہوئے۔ہم ان کے شکرگزار ہیں کہ انھوں نے حافظ فاروق الرحمن یزدانی کی وساطت سے ان واقعات کی اطلاع دی۔ ٭٭٭ |