Maktaba Wahhabi

270 - 346
گلاس شربت لاؤ اور ساتھ ہی دو آنے کی پسی ہوئی سرخ مرچ بھی لانا۔ مولانا احمد الدین صاحب نے اس نوجوان کو مخاطب ہو کر فرمایا۔ایک چھتر(پرانا جوتا)بھی لیتے آنا۔وہ منکرِ حدیث کہنے لگا چھتر کا آپ نے کیا کرنا ہے؟ مولانا نے فرمایا شربت کے ساتھ تم نے سرخ مرچ کیوں منگوائی ہے؟ اس نے کہا میں نے مرچ اس لیے منگوائی ہے کہ جب آپ شربت پئیں گے تو وہ مرچیں میں آپ کے سامنے اڑاؤں گا، پھر آپ کو چھینکیں آئیں گی اور آپ الحمد ﷲ کہیں گے تو آپ کو ثواب ملے گا۔ مولانا احمد الدین نے فرمایا: میں نے چھتر اس لیے منگوایا ہے کہ جب تو یہ مرچیں ہمارے سامنے اڑائے گا تو تیری اس شرارت پر ہم تجھے جوتے ماریں گے اور تو صبر کرے گا تو تجھے ثواب ملے گا۔ حافظ عبدالقادر روپڑی کی روایت سے مولانا محمد رفیق سلفی کا بیان کردہ واقعہ ختم ہوا۔ اس واقعہ میں جو اجمال پایا جاتا ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ حدیث شریف میں آتا ہے، جس شخص کو چھینک آئے وہ الحمد ﷲ کہے۔وہ شخص چوں کہ حدیث کو نہیں مانتاتھا، اس لیے اس نے طنزاً کہا کہ مرچ کا اثر آپ کی ناک تک پہنچے گا تو آپ کو چھینک آئے گی اور آپ حدیث کی رو سے الحمد ﷲ کہیں گے تو مستحق اجر قرار پائیں گے… مولانا نے اس کو جو چھتر مارنے کے متعلق فرمایا، اس کا پس منظر یہ ہے کہ منکرینِ حدیث کہتے ہیں کہ قرآن کے سوا کسی چیز کو نہیں ماننا چاہیے۔قرآن میں چوں کہ صبر کی تلقین فرمائی گئی ہے اور ارشاد ہے کہ ﴿اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ﴾ اس پر چھتر پڑیں گے تو وہ صبر کرے گا اور اسے ثواب حاصل ہوگا۔یعنی منکرِ حدیث نے جو طنز آمیز بات کی، مولانا احمد الدین نے قرآن کے الفاظ پڑھ کر اس کا جواب دیا۔ تاریخ اسی قسم کے واقعات کا نام ہے۔جس شخص سے ان واقعات کا تعلق ہو، اس
Flag Counter